رباعیات عمر خیام، ترجمہ میرا جی

رباعیات

عمر خیام

1048ء – 1131ء

ترجمہ: میرا جی

پہلی بات edit

ان ترجموں میں عمر خیام کی رباعیاں کچھ اس ترتیب سے پیش کی گئی ہیں کہ ایک کہانی کا سا واقعاتی تسلسل پیدا ہو گیا ہے جو اس قدر واضح ہے کہ ساتھ ساتھ نثری وضاحت کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔

(میرا جی)


1 edit

آؤ آؤ بھر لو پیالا، دیکھو بسنت کی آگ جلے

چلو اتارو، اس میں پھینکو سیت کال کے پہرا دے

دیکھو سوچو سمے کا پنچھی سامنے ہی پر تول رہا

ابھی اڑا کہ ابھی اڑا لو! کہاں گیا؟ کوئی کیا جانے


2 edit

کوئی کہے اس جگ کی آن بان میں، نوکھی بہار

کوئی ٹھنڈی سانس بھرے؛ ہم کو تو سؤرگ سے پیار

کوئی کہے یہ جیون اچھا کوئی کہے اس پار

دور کے ڈھول سہانے ہیں نو نقد نہ تیرہ ادھار


3 edit

آؤ پیتم بھر دو ان کو چھلکے امرت پیالوں سے

چھوٹیں بیتے پچھتاووں سے اگلے دن کے خیالوں سے

کل کی بات بھلا کیوں سوچیں، کل کا بھروسا کون کرے

کل شاید میں بھی مل جاؤں پہلے بیتے سالوں میں


4 edit

ایک دوار تھا ایسا جس کی کوئی کنجی مل نہ سکی

ایک تھا پردہ ایسا جس کے پار نہ آنکھوں نے دیکھا

ایک ہی پل کی بات وہاں تھی، بات چلی تیری میری

پل جب بیت گیا تو دیکھا تو بھی نہ تھی اور میں بھی نہ تھا


5 edit

اندر باہر، اوپر نیچے، آس پاس، ہر سمت یہاں

کوئی چیز نہیں، بستا ہے جادو کے سیالوں کا جہاں

سورج کی جیوتی جلتی ہے، ہم تم اس کے چاروں اور

دھندلی دھندلی صورتوں جیسے آج یہاں ہیں کل ہیں وہاں


6 edit

نرک کا ڈر اور سؤرگ کی آشا یہ دونوں ان جانے ہیں

ایک ہی بات ہے سچی آخر جیون کو مٹ جانا ہے

ایک ہی بات ہے سجی جگ میں باقی سب افسانے ہیں

آج کھلا جو ڈال پہ پھول اسے کل ہی مرجھانا ہے


7 edit

جاگو! سورج نے تاروں کے جھرمٹ کو دور بھگایا ہے

اور رات کے کھیت نے رجنی کا آکاش سے نام مٹایا ہے

جاگو اب دھرتی پر اس آن سے سورج آیا ہے

راجا کے محل کے کنگورے پر اُجوَل تیر چلایا ہے


8 edit

اس بستی میں یا اس بستی ہر بستی کی ریت یہی

باری باری گرتے پتے اور ڈالی مرجھاتی ہے

پیالے میں میٹھی کڑوی مہنگی سستی کی ریت یہی

بوند بوند میں جیون مدیرا پل پل رستی جاتی ہے


9 edit

آئی ندا یہ صبح سویرے کانوں میں مے خانے سے

کوئی کہہ دے جا کے ذرا یہ بات مرے دیوانے سے

اٹھ جاگ اب آنکھیں کھول، چل آ جا بھر لیں ہم پیمانے کو

کوئی دم میں چھلک اٹھے گی جیون کے پیمانے سے


10 edit

بھور کا بھوت جو بھاگا میرے کان بجے یوں بھور بھئے

میں تو جانوں مے خانے میں کوئی پکارا، رام ہرے!

جگمگ جگمگ مندر اپنے من کے اندر ہے تیار

"باہر بیٹھا جھومے پجاری، اس مورکھ سے کون کہے"


11 edit

ٹوٹی پھوٹی سرائے دنیا ہم سارے بنجارے ہیں

دونوں جانب دیواروں میں رات اور دن کے دوارے ہیں

راجا کے پیچھے راجا، مَہراجا کے پیچھے مہراجا

پل کے پل کا تھا وہ تماشا آخر یاں سے سدھارے ہیں


12 edit

ہم نے مانا بھور کی جھولی پھول بھری من بھاتی ہے

لیکن کل جو پھول کھلے تھے ان کی بھی کوئی بات کہو

کل کے ساتھی کہاں گئے، ان کی آواز بھی آتی ہے؟

ایسی رت کو آگ لگائیں؟ کوئی تو ہو اور کوئی نہ ہو!


13 edit

صبح سویرے مے خانہ تھا جن کا ٹھکانہ مل کر آئے

اور پکارے، کھول کواڑا! بھور بھئی، کیوں دیر لگائے؟

رین بسیرا ریت جگت کی اس سے چھپی یا اس سے چھپی

ایک بار جب لاد چلے تو لوٹ کے آنا کون بتائے!


14 edit

کیسی انوکھی بات ہے جگ میں ہم جیسے ہی لاکھ ہزار

ہم سے پہلے کیا جنہوں نے اندھیارے کے دوار کو پار

کب لوٹے کب آ کے بتایا کیسا رستا کیا بیوہار

جا کر آپ ہی جانیں اس کو ہم پر بھی ہے سفر سوار


15 edit

جیون کا یہ ناچ انوکھا ہاں بھی ہے، انکار بھی ہے

جیسا جیسا پائے اشارا ناچنے والا پاؤں بڑھائے

جس نے اس آنگن میں پھینکا (اس کا ہمیں اقرار بھی ہے)

ناچ کے بھید بھاؤ کو جانے وہی تو جانے، وہی سمجھائے


16 edit

بے بس، بے چارے مہروں کا کھیل سے اتنا میل رہا

رات اور دن کی بچھی ہے چوسر کھیلنے والا کھیل رہا

اسے کٹایا اسے پٹایا جوڑ توڑ یوں جاری ہے

وہ مارا، یہ آگے بڑھایا، پھر تھیلی میں دھکیل رہا


17 edit

سورگ دھیان کا رنگ لہرایا کامنا کے سانچے میں ڈھل

نرک آتما کی وہ چھایا جس سے دھک دھک آگ جلے

اپنی سن لو جس اندھیارے سے یہ دونوں روپ بنے

ابھی اسی سے باہر آئے، ابھی اسی میں پھر سے چلے


18 edit

میں نے آتما سے یہ کہا "جا چھپے جگت کی تھاہ تو لا

آنے والے جیون میں ہے چھاؤں کہاں پر، کہاں پر دھوپ

دھیرے دھیرے آتما لوٹی اور یہ مجھ سے آ کے کہا

نرک اور سورگ ہیں دونوں مایا، بس دونوں ہیں میرے روپ


19 edit

داتا کے ہرکارے تھے وہ آگ میں جن کو لوگ جلائیں

سادھ اور گیانی سوچ سوچ کر جو بھی ہم کو بات بتائیں

نیند سے اٹھ کر کہی کہانی، ساتھی ان کے سنیں سنائیں

کہہ کر اپنی اپنی بانی سب کے سب پھر سے سو جائیں


20 edit

اور یہ الٹا پیالہ جس کو جگ والے آکاش کہیں

جس کے نیچے رینگ رینگ کر تم بھی رہو اور ہم بھی رہیں

اس کی جانب ہاتھ اٹھا کر کس کی دہائی دیتے ہو؟

یہ بھی گھوم رہا ہے جیسے لہروں پر ہم آپ بہیں


21 edit

کل سے ہی یہ آج کے پاگل پن کی سب تیاری ہے

جیت ہار کی آنے والے کل میں مارا ماری ہے

پیو پلاؤ، کون بتائے کہاں سے آئے کیوں آئے

پیو! نہ جانے کس کارن اب منزل کی سواری ہے


22 edit

ہلتا ہاتھ لکھے من مانی لکھ لکھ آگے بڑھتا جائے

جو لکھ دے وہ ان مٹ بانی کس میں بل ہے اسے مٹائے

چاہیں جو کوئی لیکھ مٹائیں گیان اور گن کچھ کام نہ آئیں

آنکھ سے چاہے بہاؤ گنگا ایک بھی شبد نہ مٹنے پائے


23 edit

سنو، بنا تھا آخری انساں جگ میں پہلی ماٹی سے

اور جبھی وہ بیج بھی بویا جس سے فصل پروان چڑھے

اور سنو! جو لکھا تھا رچنا کے پہلے سویرے نے

اس کو اب تم مانو نہ مانو انت کال کی بھور چڑھے


24 edit

آؤ پیاری دونوں مل کر قسمت سے کوئی چال چلیں

سدا اجیرن جیون رت میں جو بھی بل ہو نکال چلیں

اس دنیا کے تانے بانے کو یوں توڑیں پھوڑیں ہم

من کی کامنا کے سانچے میں نئے روپ سے ڈھال چلیں


25 edit

ہر مورت نے جس کو میں نے اپنے من میں سمویا ہے

میری آن بان کو اک اتھلے پیالے میں ڈبویا ہے

اس جگ کے بیوہار میں کوئی سوچے، اب کیا ساکھ رہی

ایک رسیلے گیت کے نام پہ نام ہی اپنا کھویا ہے


26 edit

بیتے سماں، تو ہم تم دونوں پردے کے پیچھے چھپ جائیں

جگ جگ پھر بھی دنیا والے اپنی چال کو روک نہ پائیں

تیرا میرا ٹھور نہیں کچھ، سن لے گیانی بھید بتائیں

ساگر کو کب اس کی پروا کون سے سیپ کنارے آئیں


27 edit

پھیلے ویرانے میں سوتا پل جیون پل کا ڈیرا

ایک یہ پل ایسا ہے جس میں ایک ہی سانجھ ہے ایک سویرا

دیکھ سنبھل اب چلا قافلہ ہونی سے انہونی آئی

دیر کا کب یاں ٹھور ٹھکانہ دیر کرے تو دوش ہے تیرا


28 edit

سچ اور جھوٹ میں مان لے منوا بال برابر ہیرا پھیری

ایک بول میں چھپا خزانا جان سکی کب بدیا تیری

تو اپنی سی جوکھوں کر لے پہنچ پائے تو اسی کھوج میں

اسی بول سے ہو جائیں گے ناتھ کے درشن سانجھ سویری


29 edit

سن لو بھائی کیسی آن سے میں نے اپنا آپ چھکایا

آنکھ جھپکتے اپنے گھر میں ایسے دوسرا بیاہ رچایا

سوجھ بوجھ بوڑھی باندی تھی سیج سے ہاتھ پکڑ کے ہٹایا

سندر پیاری انگوری کو اپنے من کی دلہن بنایا


30 edit

لوگ کہیں یوں جوڑ توڑ سے سال مہینے کیوں گن ڈالے

سال گھٹا کر بنے مہینے ان کے ٹکڑے دن میں ڈھالے

سنو سنو بھائی میں نے تو اس گنتی سے صرف نکالے

کچھ مردہ دن جانے والے کچھ بے جنمے آنے والے


31 edit

ہونٹ سے ہوں گے ہونٹ نہ ملتے ہاتھ میں جام جم نہیں ہو گا

پھر کیا؟ سب کا انت یہی ہے، اس کا کوئی غم نہیں ہو گا

سوچ سمجھ لے من میں پیارے آج وہی ہے جو تو کل تھا

آنے والا کل بھی آئے، کل بھی اس سے کم نہیں ہو گا


32 edit

اس کا کھٹکا کیوں ہے جی میں جیون تیرا میرا کھاتا

بند کرے تو پھر اس جگ میں کوئی نہ آتا اور نہ جاتا

جانے کب سے بیٹھا ساقی بھرتا جائے خالی پیالہ

ہم سے لاکھ ہزار بلبلے پل میں مٹاتا پل میں بناتا


(خیمہ کے آس پاس)

کلیات میرا جی، ترجمے: مرتب ڈاکٹر جمیل جالبی

سنگ میل پبلی کیشنز 2008