رتا ہے ابرواں پر ہاتھ اکثر لاوبالی کا
رتا ہے ابرواں پر ہاتھ اکثر لاوبالی کا
ہنر سیکھا ہے اس شمشیر زن نے بید مالی کا
ہر اک جو عضو ہے سو مصرع دلچسپ ہے موزوں
مگر دیوان ہے یہ حسن سر تا پا جمالی کا
نگیں کی طرح داغ رشک سوں کالا ہوا لالا
لیا جب نام گلشن میں تمہارے لب کی لالی کا
رقیباں کی ہوا ناچیز باتاں سن کے یوں بد خو
وگرنہ جگ میں شہرا تھا صنم کی خوش خصالی کا
ہمارے حق میں نادانی سوں کہنا غیر کا مانا
گلا اب کیا کروں اس شوخ کی میں خوردسالی کا
یہی چرچا ہے مجلس میں سجن کی ہر زباں اوپر
مرا قصہ گویا مضموں ہوا ہے شعر حالی کا
تمہارا قدرتی ہے حسن آرائش کی کیا حاجت
نہیں محتاج یہ باغ سدا سر سبز مالی کا
لگے ہے شیریں اس کو ساری اپنی عمر کی تلخی
مزہ پایا ہے جن عاشق نیں تیرے سن کے گالی کا
مبارک نام تیرے آبروؔ کا کیوں نہ ہو جگ میں
اثر ہے یو ترے دیدار کی فرخندہ فالی کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |