رتبہ کچھ عاشقی میں نہ کم ہے فقیر کا
رتبہ کچھ عاشقی میں نہ کم ہے فقیر کا
ہیں جس کے سب صنم وہ صنم ہے فقیر کا
تکیہ اسے نہ بھول کے کہنا کبھی میاں
تکیہ نہیں یہ باغ ارم ہے فقیر کا
رہتا ہے پھر وہ پھولتا مثل سدا سہاگ
جس گل بدن پہ لطف و کرم ہے فقیر کا
گھٹ جائیں جس کو دیکھ کے لاکھوں تری گھٹا
اے ابر تر وہ دیدۂ نم ہے فقیر کا
لکھتا ہے بن تراشے ہی حرفوں کے جوڑ توڑ
اے خوش نویس یہ وہ قلم ہے فقیر کا
ظل ہما بھی واں سے سعادت کرے حصول
جس سر زمیں پہ نقش قدم ہے فقیر کا
ہیں زیر سایہ اس کے ہزاروں گدا و شاہ
بیرق اسے نہ کہہ یہ علم ہے فقیر کا
کیونکر لکھے نہ فقر کے شان و شکوہ کو
یارو نظیرؔ پر بھی کرم ہے فقیر کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |