رخسار کو ہے زلف شکن در شکن سے ربط

رخسار کو ہے زلف شکن در شکن سے ربط (1928)
by سید امیر حسن بدر
324281رخسار کو ہے زلف شکن در شکن سے ربط1928سید امیر حسن بدر

رخسار کو ہے زلف شکن در شکن سے ربط
یعنی ہے شیخ کعبہ کو اب برہمن سے ربط

یوں ہی ہے مجھ کو اس بت پیماں شکن سے ربط
ہے چند روزہ روح کا جیسے بدن سے ربط

پھولوں کو جس طرح ہو بہار چمن سے ربط
یوں ہی تھا مجھ کو بھی کسی گل پیرہن سے ربط

رکھتا نہیں ہوں صرف حسین و حسن سے ربط
ہے مجھ کو چار یار سے اور پنجتن سے ربط

خوشیاں منائیں غیر نہ اس ارتباط پر
مجھ سے بھی تھا کبھی بت پیماں شکن سے ربط

حمد و ثنا میں تیری میں رطب الساں رہوں
جب تک رہے دہن میں زباں کو سخن سے ربط

دیوانہ چشم و گیسوئے مشکیں کا ہوں ترے
رکھتا ہوں اس لئے میں غرال ختن سے ربط

ہم بھی کسی کے تیر نظر کے شکار تھے
ہم کو بھی تھا کبھی کسی ناوک فگن سے ربط

کس درجہ طول ہے شب تار فراق یار
شاید ہے اس کو زلف شکن در شکن سے ربط

تیر نظر سے دل کو نہ چھلنی بناؤ بدرؔ
اچھا نہیں ہے اس بت ناوک فگن سے ربط


This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).