رخسار کے پرتو سے بجلی کی نئی دھج ہے

رخسار کے پرتو سے بجلی کی نئی دھج ہے
by آغا شاعر قزلباش

رخسار کے پرتو سے بجلی کی نئی دھج ہے
کیوں آنکھ جھپکتی ہے کیا سامنے سورج ہے

دنیا کی زمینوں سے اے چرخ تو کیا واقف
اک اک یہاں پنہاں کاؤس ہے ایرج ہے

دروازے پہ اس بت کے سو بار ہمیں جانا
اپنا تو یہی کعبہ اپنا تو یہی حج ہے

اے ابروئے جاناں تو اتنا تو بتا ہم کو
کس رخ سے کریں سجدہ قبلے میں ذرا کج ہے

انصاف کرو لوگو انصاف کرو پیارو
شاعرؔ کی زمانے میں دنیا سے نئی دھج ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse