319592رساکشیمرزا عظیم بیگ چغتائی

میں اپنے اس افسانے کو ایک موٹے سے رسے کے نام نامی پر معنون کرتا ہوں جو بڑے زور و شور سے کھینچا جا رہا ہے۔

(۱)

عرصہ کئی سال کا ہوا ہم دو دوست دسمبر کی چھٹیوں میں اپنے وطن لاہور سے کلکتے گئے۔ وہاں سے واپسی کا ذکر ہے کہ میرے دوست تو وہیں رہ گئے اور میں کلکتے سے سیدھا وطن روانہ ہوا۔ راستے کا ذکر ہے۔ ایک انتہا سے زیادہ ہیبت ناک خان صاحب کا سفر میں ساتھ ہوا۔ ان کے ساتھ ایک نوعمر برقع پوش خاتون بھی تھیں اور بہت جلد معلوم ہوگیا کہ باپ بیٹی ہیں۔ ان خان صاحب کی بڑی زبردست مونچھیں تھیں۔ تمول اور آرام نے چہرہ انار کی طرح سرخ کر دیا تھا۔ سفید شلوار پر ایک کوٹ پہنے تھے اور قومی لباس زیب تن کیے رئیسانہ انداز کے ساتھ افغانی جلال کی بولتی ہوئی تصویر تھے۔ ہم سیکنڈ کلاس میں سفر کر رہے تھے اور ایک جگہ جب ہم صرف تین مسافر درجے میں رہ گئے تو مجھ سے ان کی گفتگو ہوئی۔

صاحب زادی صاحبہ چہرے سے نقاب الٹ کر باہر کی طرف منہ کیے بیٹھی تھیں اور ظلم تو دیکھیے کہ ان کو تو اجازت کہ مجھے دیکھیں اور ادھر میرا یہ حال کہ ادھر نظر نہیں کر سکتا کیونکہ بدقسمتی سے خان صاحب کے پاس علاوہ مونچھوں کے کمر پیٹی میں ایک چاندی کے دستہ کا خوشنما خنجر بھی تھا۔ اور اس امر کی تحقیقات کی مجھے قطعی ضرورت نہ تھی کہ خاں صاحب اس کا استعمال موقعوں پر کرتے ہیں یا کبھی بے موقع بھی۔ صاحب زادی صاحبہ نے یہ محسوس کر لیا میں سر بھی نہیں اٹھا سکتا تو ان کو اور بھی آزادی حاصل ہوگئی۔

لیکن غور فرمائیے کہ ان کو نہ کیسے دیکھتا۔ نہایت ہی صاف شفاف بلور کا سا رنگ تھا اور چہرہ نوجوانی کے نور کے سبب ریشم کے برقعے میں جگمگا رہاتھا۔ یہ مجھے تسلیم ہے کہ ناک نقشے پر غور کرنے کی ہمت نہ ہوئی، در اصل ایک جھپکی سے زائد دیکھنا اپنی جوانی سے ہاتھ دھونا تھا۔ خان صاحب بیٹی سے کبھی کبھار پشتو میں ’’دغدغائے‘‘ پھر میرے اوپر بھی عنایت ہوئی۔ یعنی موسم کی شکایت۔ ریل کے محکمے کی نالائقی پر مجھے ان کی صائب رائے سے اتفاق کرنا پڑا۔ اس کے بعد ہی کچھ سیاست کے بارے میں بات چیت ہوئی اور وہ بھی کچھ اس طرح کہ انہوں نے جو میرا نام پوچھا تو میں نے یہی سمجھا کہ اگر میں نے اصلی نام بتا دیا اور ان کو یہ معلوم ہوگیا کہ میں ہندو ہوں تو محض اس بنا پر یہ مجھے قتل تو خیر نہیں کریں گے مگر سفر ضرور ’’میلا‘‘ ہو جائے گا۔ باپ اور بیٹی دونوں مجھے قطعی دوسری نظروں سے دیکھیں گے۔ لہٰذا کیا فائدہ سچ بولنے سے۔ چنانچہ میں نے اپنا نام نور محمد بتا دیا اور یہ کہ کلکتے میں تجارت کرتا ہوں۔ خاں صاحب بھی تجارت کرتے تھے اور ایکس پور میں رہتے تھے، وہیں جا رہے تھے۔ اور میری خوش مزاجی کی داد دیجیے کہ میں نے کہا، ’’اوہو ایکس پور تو میں خود دو روز کے لیے اتروں گا۔‘‘

یہ سنتے ہی خان صاحب افغانی اخلاق کا نمونہ بن گئے۔ کہنے لگے، ’’میرے یہاں ٹھہرنا پڑے گا۔‘‘ میں نے تھوڑے سے اصرار پر منظور کر لیا۔ مگر میں یہ پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ میرا اترنا وہاں مشروط ہے۔ اسٹیشن پر مجھے تار موجود ملے گا اور میرا اترنا یا نہ اترنا مشروط ہے۔

اس کے بعد میں عرض نہیں کر سکتا کہ خان صاحب کے اخلاق کا کیا عالم ہوگیا۔ وہی خوفناک چہرہ اب اخلاق و محبت کا آئینہ ہو گیا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ صاحب زادی صاحبہ کے برقعے کے نقاب کا نہ صرف زاویہ مختلف ہو گیا بلکہ آنکھ کے قریب پیشانی مع دو ایک سنہری لٹوں کے کھولنے میں اندیشہ نہیں رہا۔ اور پھر سفر تو سفر ہے۔ میں ان کے وجود سے اس قدر خائف ہو چکا تھا کہ اس طرف سے لوٹا بھی نہ اٹھا سکتا تھا، خان صاحب نے فوراً نہ صرف اجازت دی تھی بلکہ اس کو اسلامی شعار اور پردے کی بیجا سختی قرار دیا تھا۔

(۲)

میں نے ابھی تک سوا اس کے کچھ بھی طے نہ کیا تھا کہ خان صاحب کے ساتھ سفر دلچسپی سے گزرے، لیکن اب سوا اس کے چارہ ہی نہ تھا کہ خان صاحب کے گھر مہمان ہوں۔ بات یہ ہوئی کہ ایک اسٹیشن پر خان صاحب اتر کر گھومنے لگے۔ صافہ اور کوٹ ان کا ان کی جگہ پر ہی تھا۔ گھومتے گھومتے وہ حضرت ذرا دور نکل گئے اور وہ بھی ایسے کہ گاڑی چھوٹ گئی اور ان کو مجبوراً ایک انٹر کلاس میں بیٹھنا پڑا۔ مگر ستم ہو گیا۔ صاحب زادی صاحبہ نہ صرف گھبرا گئیں، بلکہ گھبرا کر گاڑی چلتے ہی اپنے والد بزرگوار کے بارے میں چلائیں۔ مطلب یہ کہ میں دیکھوں۔ میں نے دیکھا بھی اور کہا کہ ’’آپ گھبرائیں نہیں وہ دوسری جگہ بیٹھ گئے ہوں گے۔‘‘ انہوں نے انتہائی گھبراہٹ میں بالمشافہ سوال کیے اور میں نے انتہائی احترام اور تمیز سے ان کو ہر طرح اطمینان دلا دیا، لیکن ان کو چین کہاں۔ کہنے لگیں، ’’خدا کرے وہ بیٹھ گئے ہوں۔‘‘

میں نے کہا، ’’محترمہ آپ گھبرائیں نہیں۔‘‘ وہ بولیں، ’’میں انتہا سے زیادہ پریشان ہوں کیونکہ وہ چلتی گاڑی میں کبھی نہیں بیٹھ سکتے۔‘‘ میں نے بیٹی کے منہ سے باپ کی ناقابل تردید ضخامت کے قصیدے کی تشبیب پر غور کیا اور کہا، ’’مگر گاڑی چلتے ہی بیٹھ گئے ہوں گے۔‘‘

’’مگر بھیڑ بھی تو کتنی تھی۔۔۔‘‘

میں نے کہا، ’’محترمہ آپ مطمئن رہیں۔ گھبرائیں نہیں۔‘‘ وہ چپ ہوگئیں۔ برقعے کا نقاب ان کے سرپر تھا مگر وہ داہنی طرف سے کپڑے سے وہ اپنا آدھا چہرہ اب بھی چھپائے تھیں۔ اب انہوں نے اس کو اپنے خوبصورت دانتوں میں دبا لیا۔ حیرت اور گونہ پریشانی چہرے پر تھی۔ میری طرف حیران پریشان دیکھ رہی تھیں۔

’’اگلا اسٹیشن کب آئے گا؟‘‘

میں نے بتا دیا۔

’’میں بڑی ممنون ہوں گی اگر آپ گاڑی رکتے ہی۔۔۔‘‘

’’محترمہ آپ مطمئن رہیں۔ میں گاڑی رکتے ہی اتر پڑوں گا۔ آپ کے گھبرانے سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔‘‘

’’شکریہ۔ صد شکریہ آپ کا۔ میں مجبور ہوں۔ معاف کیجیے گا آپ کو بہت تکلیف دی۔‘‘

میں نے کہا، ’’کوئی مضائقہ نہیں۔ میں ہر خدمت کے لیے حاضر ہوں۔‘‘ مجھ سے نہ رہا گیا۔ میں نے ان کے خوبصورت اور دلکش چہرے اور ناک نقشے کو خوب غور سے دیکھ لیا تھا اور پھر اس پر ان کا انگریزی لب و لہجہ۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھ ہی لیا، ’’اگر ناگوار خاطر نہ ہو اور میں قابل معافی سمجھا جاؤں تو کیا میں آپ سے ایک سوال کر سکتا ہوں۔۔۔ مگر نہیں غالباً۔۔۔‘‘

’’آپ شوق سے پوچھ سکتے ہیں۔۔۔‘‘

’’مگر شائستگی کے خیال سے۔۔۔ در اصل۔۔۔ میں۔۔۔ معاف کیجیے گا۔۔۔ محترمہ۔۔۔ ممکن ہے آپ کے والد صاحب قبلہ ناپسند فرمائیں۔۔۔ آپ کی انگریزی گفتگو کا لب و لہجہ کس قدر انگریزی ہے۔۔۔‘‘

’’میری والدہ انگریز تھیں۔۔۔ کرنل اوسرم کی لڑکی۔‘‘

’’اچھا۔‘‘ میں نے مطمئن ہو کر کہا، ’’معاف کیجیے گا۔ مجھے حق تو نہ تھا اس قسم کے سوال کا بالخصوص خان صاحب کی وجہ سے۔ مگر میں سخت متحیر تھا۔۔۔‘‘

وہ بڑے فخر کے ساتھ بولیں، ایسے کہ گویا ضرورتاً، ’’مگر آپ کو سخت تعجب ہوگا کہ ساری عمر انہوں نے نہ پھر کبھی انگریزی لباس پہنا اور نہ پردے سے باہر نکلیں اور روزہ نماز کی سخت پابند تھیں۔ سخت پردہ کرتی تھیں۔‘‘

اب پردے اور روزے کا سوال رہا الگ، نماز کا نام سن کر میں سخت چکرایا۔ کہیں پوچھ بیٹھے کہ نماز میں کیا پڑھتے ہیں۔ کلمہ تو یاد تھا۔ مگر نماز سے قطعی ناواقف تھا۔ حالانکہ ہزاروں مرتبہ لوگوں کو نماز پڑھتے دیکھا تھا۔ مگر اب جو غور کرتا ہوں تو کچھ یاد نہیں پڑتا۔ سوا سجدہ اور رکوع اور اللہ اکبر کے۔ اور وہ بھی رکوع کا نام رکوع تو اب معلوم ہوا، آدھا جھکنا کہہ سکتا تھا۔ ہاں سجدے کا نام یاد تھا۔ خیر میں نے دل میں کہا۔ یہ بھی غنیمت ہے کہ مسلمان نوجوان آج کل نماز نہیں پڑھتے۔ ہم بھی انہیں میں سے سہی۔ کپڑے سب انگریزی ٹھیرے، دیکھا جائے گا اور پھر یہ بھی خیال کہ کون ہمیں ان دلربا خاتون سے شادی کرنا ہے جو اس مخمصے میں پڑیں۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ ایسے انگریزی میں ڈوبے ہوئے مسلمان نوجوان تصور کرلیے جائیں گے جو کلمے سے آگے کچھ نہیں جانتے۔

(۳)

جب اگلا اسٹیشن آیا تو پہلا کام میں نے یہ کیا کہ گاڑی ہلکی ہوتے ہی قبل رکنےکے کود پڑا۔ اس تندہی اور زور کے ساتھ کہ معلوم ہو کہ اگر میں نہ گیا تو گویا خان صاحب ملیں گے ہی نہیں۔ چشم زدن میں خان صاحب کو لے آیا اور میں نے دونوں کو خوش کرنے کے لیے کہا، ’’خان صاحب۔ معاف کیجیے گا۔ باپ بیٹی میں ایسی محبت کم از کم میں نے آج تک نہیں دیکھی۔‘‘ اور یہ کہہ کر میں نے تمام حیرانیوں کو دس سے ضرب دے کر جو بیان کیا ہے تو یہ حال ہے کہ باپ اور بیٹی دونوں ایسے خوش کہ بیان نہیں کر سکتا۔ اس اسٹیشن کے بعد ہمارے ’’مسافری‘‘ برتاؤ ترقی کرکے کہیں سے کہیں پہنچے۔ حتی کہ ایکس پور کا اسٹیشن آنے سے پہلے ہی طے ہو چکا تھا کہ میں ضرور ہی اتروں گا۔ خواہ تار آئے یا نہ آئے۔ چنانچہ میں نے اس حکم کی بخوشی تعمیل کی۔

پہلے تو سنتا ہی تھا۔ اب تجربے نے ثابت کردیا کہ افغانی خلوص کیا ہے؟ خان صاحب کی دولڑکیاں اور دو لڑکے تھے۔ یہ لڑکی سب سے بڑی تھی اور اس کا نام عالم تھا۔ مجھے یہاں رساکشی کے مسئلہ کو پیش کرنا ہے اور اخلاقیات پر بحث نہیں ہے۔ لہٰذا میں قدرے آزادی سے کام لے کر ناظرین سے کوئی امر پوشیدہ نہ رکھوں گا۔

خان صاحب کا بڑا کاروبار تھا اور بہت سے فوجی ٹھیکے تھے۔ اس کاروبار سے قطع نظر کر کے مجھے تو اپنے کام سے کام تھا۔ میں اب دل میں یہ سوچ رہا تھا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ شادی ہو جائے۔ جہاں تک مذہب کا سوال ہے میں ذات کا کھتری، ہندو کا بچہ۔ مگر ہندو اس لیے کہ ہندو کے گھر میں پیدا ہوا۔ رہ گئی مذہبیت تو سچ پوچھیے نہ میں رام کا دلدادہ اور نہ اللہ میاں کا شوقین۔ سوال یہ تھا کہ کیوں نہ میں اس لڑکی سے شادی کی کوشش کروں۔ کہاں لاہور، کہاں ’’ایکس پور۔‘‘ انہیں کبھی پتہ نہیں چل سکے گا اور پتہ چل بھی گیا تو جھگڑا ختم۔ مسلمان ہوکر نماز وغیرہ سیکھ لوں گا۔ لیکن ایک بات ضرور تھی۔ میری موجودہ بیوی کیا کہے گی۔ مجھے اپنی پیاری بیوی کتنی عزیز ہے اور تھی، میں عرض نہیں کرسکتا۔ صورت شکل اور محبت کا جہاں تک تعلق ہے، مجھے اپنی پیاری بیوی بے حد عزیز تھی۔ خیال آیا اور چلا گیا۔ اسے کیا پتہ چلے گا اور بالفرض پتہ چل بھی گیا تو خفا ہو جائے گی نا۔ راضی کر لیں گے۔ ویسی ہی دیوانی ہے محبت میں۔ راضی کر لوں گا۔

ان امور کو دل میں طے کر کے میں ترکیب سوچنے لگا کہ کیا کرنا چاہیے۔ یہ تو کہہ ہی چکا تھا کہ ماں باپ نہیں۔ بہن بھائی نہیں۔ شادی ابھی ہوئی نہیں ہے۔ صرف تجویز کرنا باقی تھا۔ ضرورت یہ محسوس ہوئی کہ خان صاحب کا باپ کی طرح احترام کیا جائے۔ مثلاً دوڑ کر پانی پلا دیا، چیز اٹھا دی، حتی کہ جوتا اٹھا دیا۔ اس آخری ترپ نے بازی جیت لی اور پھر رخصت ہوتے وقت کوئی سو روپیہ کے تحائف وغیرہ سے میں نے خان صاحب کے بچوں کی خاطر کی۔ اب بتائیے کہ مجھ سے بہتر اور کوئی نوجوان ممکن تھا! ہاں یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ اگر افغانیوں سے صورت شکل ہاتھ پیر میں بہتر نہیں تو ہیٹا نہیں ہوں۔ اب رہا روپیہ تو خان صاحب سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہ ہوگا۔ کم و بیش دو ہزار روپے مہینے کی سکنی جائیداد کی آمدنی تھی۔

لاہور پہنچ کر میں نے اور تحفے بھیجے اور لکھا کہ کلکتے واپس جا رہا ہوں۔ خان صاحب نے پہلی ہی دفعہ میں اپنےکئی دوست احباب سے ملاقات کرا دی تھی۔ کلکتے جاتے میں میں پھر ’’ایکس پور‘‘ آیا اور اب کی دفعہ خان صاحب کے خاص خاص دوستوں کے لیے لاہور سے پھل وغیرہ لایا۔ سب کے سب مجھ سے اتنا خوش ہوئے ہیں کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ اور اسی طرح میں دوچار دفعہ جو ’’ایکس پور‘‘ پہنچا تو زمین ہموار تھی۔ خان صاحب کے ایک گہرے دوست کے ذریعے عندیہ جولیا، خان صاحب کو تیار پایا۔ پھر کیا تھا دس ہزار روپیہ میں نے اس حماقت کے لیے علیحدہ نکالا اور عالم کے لیے وہ زیورات اور کپڑے تیار کرائے کہ خان صاحب بھی دنگ رہ گئے۔ اب یہ سوال کہ خان صاحب نے قبل شادی کسی کے ذریعے لاہور میں تحقیقات کروا لی ہوتی تو عرض ہے کہ یہ ان کی غلطی کہیے ورنہ انتظام میں نے اس کا بھی کرلیا تھا۔ اس سے زائد اور کیا اطمینان ممکن تھا کہ خود پیغام میرے چچا یعنی لاہور کے ایک ایسے رئیس نے دیا تھا جن کے مسلمان ہونے میں تو شک تھا ہی نہیں۔ دو ایک جاننے والے خود ’’ایکس پور‘‘ میں موجود تھے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کا بھتیجا میرا دوست نور محمد تھا جو وقت بگڑے پر بھی کام آنے والا دوست تھا۔

قصے کو مختصر کرتا ہوں۔ اپنی نور نظر عالم کو خان صاحب نے میری نور نظر بنا دیا۔ میں نے اپنی جدید بیوی کو کیسا پایا؟ کچھ عرض نہیں کرسکتا۔ سچ کہتا ہوں کہ محبت میں اس نے پہلی بیوی کو بھلا دیا۔ ایسا کہ میں خود فنا ہو کر رہ گیا۔ اپنے ساتھ کلکتے لے گیا اور معقول مکان کرایے پر لے کر ٹھاٹ سے رہنے لگا۔

(۴)

ہم دونوں میاں بیوی بے طرح خوش تھے لیکن بہت جلدعالم کو میرے تجارتی معاملات کی طرف سے شبہ ہوا۔ میں نے کہہ دیا کہ کاروبار سست ہے مگر عرض ہے کہ چست اور سست کیسا بھی کاروبار ہو، اس کا وجود تو نہیں چھپتا۔ چنانچہ اقبال کرنا پڑا کہ کاروبار بند ہے اور ترکیب چلائی کہ ساجھے میں ہے اور اصل پوچھئے تو عالم کو بھی سیر و تفریح سے اور عشق و محبت سے کہاں فرصت جو اس تحقیقات میں سر کھپائیں۔ میری طرف سے اجازت تھی کہ جو چاہیں خرچ کریں اور جب جی چاہے باپ کے پاس جائیں۔

اس دوران میں لاہور بھی جانا پڑا۔ وہاں محبت کی ماری سرلا دیوی حیران کہ مجھے ایکا ایکی یہ کیا ہوا کہ اِدھر اُدھر غائب ہوں۔ اس سے تو یہ کہہ سکتا تھا کہ تجارت کرتا ہوں۔ اس کی محبت اور الفت بدستور تھی اور میں کہتا ہوں کہ مجھے اس کی دلربا اور معصوم صورت مسکراتے پھول کی طرح کھلی دیکھ کر رحم آیا۔ وہ ہرگز اس کی مستحق نہ تھی کہ اس کے ہوتے ہوئے کسی حور کو بھی جگہ دی جائے۔

بہت جلد میں نے محسوس کیا کہ میں رساہوں بلکہ رساکشی شروع ہو چکی تھی۔ مجھے دو طرف جوابدہی کرنی پڑ رہی تھی۔ لاہور سے زیادہ دن تک غائب رہنے کے وجوہات کلکتے میں پیش کروں اور کاروبار اور گھر کلکتے میں ہوتے ہوئے قریبی رشتہ داروں کے نہ ہوتے ہوئے لاہور میں رہنے کا عذر معقول پیش کروں۔ در اصل مجھ سے غلطی ہوئی، مجھے یہ کہنا چاہیے تھا کہ کاروبار کی ایک شاخ لاہور میں ہے۔ یہ رساکشی اس قسم کی تھی کہ دونوں طرف کی محبت اور معاملات مجھے اپنی اپنی طرف اس طرح کھینچتے تھے کہ ازخود دوڑنا پڑتا تھا تب جاکر بمشکل رسی ڈھیلی ہوتی تھی۔

چند مہینے بھی نہ گزرنے پائے تھے کہ لاہور کی ٹیم نے زور لگانا شروع کیا۔ سرلانے صدائے احتجاج بلند کی۔ اس نے صاف صاف کہہ دیا کہ جہاں چلو، مجھے بھی لے چلو اور کیوں نہ کہتی، مہارانی شری سیتاجی کی پرستار تھی۔ اب میں اس سے یہ کیونکر کہتا کہ نیک بخت وہاں راستے میں ایک زبردست مونچھوں والا ہیبت ناک خان ایسا رہتا ہے کہ جس کو دیکھتے ہی تمہارے دیوتا کوچ کر جائیں گے۔

(۵)

عید کے موقع پر ’’ایکس پور‘‘ آیا ہوا تھا۔ بعد عید دوست احباب کے یہاں اپنے خسر صاحب کے ساتھ ملنے گیا۔ ایک سپرنٹنڈنٹ ڈاک خانہ جات تھے۔ ان سے بھی ملنا تھا۔ خان صاحب نے کہا کہ تم بچوں کو لے کر چلو میں آتا ہوں۔ اب یقین مانیے کہ میں جو سالوں کو لے کر پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے پرانے دوست احمد علی بیٹھے ہیں۔ مجھے دیکھتے ہی چلائے، ’’ارے یار تو کہاں؟‘‘

اب میں کیا عرض کروں! کاٹو تو لہو نہیں بدن میں! یہ سوال نہیں کہ اس موقعے پر مجھے کیا کرنا چاہیے تھا۔ یہ پوچھیے میں نے کیا کیا۔ یہ کہ تعجب سے انہیں دیکھنے لگا۔ میں نے کہا، ’’معاف کیجیے گا۔ میں نے جناب کو پہچانا نہیں۔۔۔ غلط فہمی ہوئی ہوگی۔۔۔ خوب۔۔۔ جی نہیں۔ میں تو کبھی جناب کے ساتھ نہیں پڑھا۔۔۔‘‘

’’ارے۔۔۔!‘‘ گھبراکر احمد علی نے کہا؛’’باؤلا ہوا ہے۔۔۔‘‘ میں نے کہا، ’’مجھے سخت افسوس ہے کہ جناب ایک قطعی انجان ہو کر میری سخت توہین کر رہے ہیں اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ اب اگر جناب نے زیادتی کی تو مجھے کیا کرنا پڑے گا۔۔۔‘‘

سپرنٹنڈنٹ صاحب فوراً بیچ میں پڑ گئے۔ انہوں نے احمد علی صاحب کو ڈانٹا اور روکا اور ان سے کہا غلط فہمی ہوئی ہے۔ مگر توبہ کیجیے وہ بھلا مانس ماننے والا تھا۔ میرے رخسار پر ایک کھرونچہ تھا جو بچپن میں انہی حضرت احمد علی کے تیز ناخن سے لگا تھا۔ چنانچہ احمد علی نے اب اس کا حوالہ دیا۔ میں کیا کرتا مجبوراً بدمزگی کے ساتھ وہاں سے رخصت ہو کر ہانپتا کانپتا گھر پہنچا۔ خسر صاحب کا انتظار کیا مگر وہ نہ آئے۔

اب میں بڑے سوچ میں پڑ گیا کہ معاملہ بگڑ گیا۔ لیکن یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ احمد علی آج ہی چلا جائے گا۔ خان صاحب گھر پر آئے تو معلوم ہواکہ سپرنٹنڈنٹ صاحب کے یہاں نہیں گئے۔ در حالیکہ نہ صرف وہاں ہو کر آئے تھے بلکہ حقیقت معلوم کرکے ایک آدمی کو دریافت حال کے لیے تعینات کرکے آئے تھے۔ مگر میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور پھر ان میں کوئی تغیر ہی نہ دیکھا۔ مگر دوسرے روز میں سپرنٹنڈنٹ صاحب کے پاس خود گیا تاکہ معلوم کروں کہ معاملات کی صورت کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ احمد علی نے ساری حقیقت بیان کردی ہے۔ مگر معاملہ غلط فہمی کے عذر کے آگے کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ انہوں نے بھی اصلیت چھپائی۔ چنانچہ وہاں سے واپس آکر میں نے خود اپنے خسر صاحب سے اس ’’دلچسپ‘‘ غلط فہمی کا واقعہ ہنس ہنس کر بیان کیا۔ عالم نے بھی اسے دلچسپی سے سنا اور احمد علی کی حماقت کا خوب مذاق اڑایا گیا۔ قصہ مختصر میرے خسر صاحب خود مشکوک ہو چکے تھے مگر انہوں نے اس امر کو ایسے پوشیدہ رکھا کہ میں معلوم نہ کر سکا اور میں بے خبری میں تھا کہ ایک دم سے طوفان پھٹ پڑا۔

عید کے چوتھے یا پانچویں روز کا ذکر ہے کہ عالم نے کلکتے چلنے کو کہا اور میرا ارادہ ہوا کہ لاہور جاؤں کیونکہ لاہور کا رسا بڑے زور سے کھینچ رہا تھا۔ لیکن اس لاہور اور کلکتے کے سوال کو میرے خسر صاحب نے یہ کہہ کر طے کر دیا۔ ابھی ہفتہ بھر اور ٹھہرنا چاہیے۔ میں رک گیا اور اصل میں مجھے نہیں معلوم تھا کہ مجھے کیوں روک رہے ہیں۔

اس کے تیسرے دن کا ذکر ہے۔ کوئی نو بجے ہوں گے۔ میں باہر برآمدے میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا کہ خسر صاحب کا موٹر آکر رکا۔ کہیں باہر سے آئے تھے۔ موٹر سے اتر کر وہ برآمدے میں آئے ہیں۔ میں کھڑا ہوا ہوں کہ بجلی کی طرح خان صاحب نے خنجر سے میرے اوپر حملہ کر کے غضب ناک شیر کی طرح گرج کر کہا، ’’کافر!‘‘ میں قطعی اس کے لیے تیار نہ تھا اور اگر اخبار والا ہاتھ موقع پر نہ پہنچ جاتا تو خنجر میرے سینے میں پیوست ہو گیا تھا۔ خنجر کو اخبار نے روکا اور میرا ہاتھ زخمی ہوا۔ میں چیخ کر قریب کی کرسی گھسیٹ کر تڑپ کر بھاگا اور خان صاحب شیر غراں کی طرح پشتو میں گالیاں اور لفظ ’’کافر‘‘ کا نعرہ مارتے میرے پیچھے۔ میں چیختا، خدا کے واسطے دیتا، کلمہ پڑھتا گھر میں گھسا۔ میں کہاں پناہ ڈھونڈ سکتا تھا؟ عالم کے سوا اور مجھے کون بچا سکتا تھا؟

تیر کی طرح جھپٹ کر میں عالم کے کمرے میں پہنچا۔ وہ صوفے پر بیٹھی کسی کام میں مشغول تھی مگر اس بلوے کی گڑبڑ سن کر کھڑی ہوئی کہ میں پہنچا۔ دوڑ کر میں نے اس کے پیر پکڑ لیے، ’’خدا کے واسطے مجھے بچا۔۔۔‘‘ تڑپ کر میں اس کی پشت پر پہنچا۔ کیونکہ غضب ناک شیر آپہنچا تھا۔ میں چیختا جا رہا تھا۔ سن تو لیجیے۔ بلند آواز سے کلمہ پڑھتا ہوں۔ مگر کون سنتا ہے۔ لیکن بیوی پھر بیوی ہے۔ عالم نے سینہ سپر ہوکر دیوانہ وار روتے ہوئے اپنے کو درمیان میں ڈال دیا۔ خان صاحب کی خون فشاں آنکھوں سے غیظ و غضب کی چنگاریاں اڑ رہی تھیں۔ ’’کافر بچہ۔۔۔‘‘ انہوں نے گرج کر کہا، ’’مار ڈالوں گا‘‘ اور لڑکی کو جھٹکا دے کر پھر حملہ آور ہوئے کہ میری سالی بھی روتی ہوئی آگئی تھی اور اب دونوں بہنیں باپ سے لپٹ پڑیں اور روک لیا۔ عالم اپنے باپ کے ہاتھ میں لپٹ گئیں اور دونوں بیٹیاں ایسی روئیں اور اِدھر میں نے کلمہ پڑھ پڑھ کے دہائی دے کے قبل اپنے قتل ہونے کے دو منٹ مانگے تو خان صاحب کو رکنا پڑا۔ خنجر علیحدہ رکھنا پڑا اور ٹھنڈے دل سے تو خیر ناممکن تھا۔ یوں سمجھیے ’’گرم دل‘‘ سے میری بات سننے پر راضی ہوئے۔

میں نے دولفظوں میں اپنی برأت پیش کی۔ وہ یہ کہ میں ہندو بے شک تھا مگر عرصہ ہوا مسلمان ہوگیا اور مسلمان ہوں۔ رہ گئی ہندو بیوی تو مذہب بدلنے کے بعد سے مجھ سے اس سے کوئی تعلق نہیں۔ اپنے اسلام لانے کا ثبوت دے سکتا ہوں۔ اور پھر قصہ ہی کیا ہے، میں کہتا ہوں کہ مسلمان ہو چکا اور ہوں اور بالفرض پہلے نہیں تو اب ہوں لا الہ اللہ محمد رسول اللہ۔ جو میرے اسلام میں شک کرے وہ بقول علماء خود کافر۔ چلیے چھٹی ہوئی۔ اب رہ گیا یہ سوال کہ میں نے یہ بات پہلے سے کیوں نہ کھول دی۔ بے شک میری خطا ہوئی اور موجود ہوں، جو سزا چاہیں دے لیجیے۔

’’تونے دھوکا دیا ہمیں۔۔۔‘‘ خان صاحب نے پھر گرم ہوکر کہا، ’’ہندو بچہ کہیں کا۔‘‘

میں نے کہا، ’’قبلہ عالم مجھے اپنی خطا تسلیم ہے۔ جو کچھ بھی کہیے دھوکا کہہ لیجیے خواہ فریب۔‘‘

جھگڑا یوں طے ہونا قرار پایا کہ ہندوستان بھر کے مشہور علماء کو تار دے کر پوچھا جائے کہ ایسا ایسا معاملہ ہے، آپ کیا فتویٰ دیتے ہیں۔ اور اگر کہیں میرے خلاف فتویٰ آئے کہ کافر نے دھوکا دے کر لڑکی خراب کی تو میں قتل کردیا جاؤں گا اور فی الحال میں زیر حراست سمجھا گیا۔ اپنی بیوی اور سالی کی حراست میں رہا۔

اس حادثہ فاجعہ کی خبر سن کر خان صاحب کے جملہ ہمدرد اور دوست دوڑ پڑے۔ لیکن جو بھی مجھ سے ملا اس نے یہی فیصلہ دیا کہ خطا ضرور میری ہے۔ مگر اب قصہ یوں ختم ہے کہ میں مسلمان ہوں۔ چنانچہ طول و طویل تار ہندوستان کے جملہ کفر سازی کے کارخانوں کے مشہور منیجروں کو دیے گئے اور ان سب مولویوں نے یہی لکھا کہ شادی کالعدم نہیں ہوئی اور اگر ایسی صورت میں کوئی اپنے اسلام لانے کا پورا ثبوت بہم پہنچا سکے تو مضائقہ نہیں ہے۔ یہی کافی ہے کہ نکاح کے وقت اس نے اسلام کا اقرار کیا اور اب بھی مسلمان ہے اور اس کا یہ کہہ دینا کہ میں مسلمان ہو چکا ہوں قطعی کافی ہے اور بمنزلہ تکرار کے ہے۔

جب ہر طرح کا مذہبی اطمینان ہو گیا تو اب خان صاحب نے یہ فرمایا کہ تم دھوکہ باز ہو۔ مجھے یقین نہیں کہ اپنی ہندو بیوی کو چھوڑ چکے ہو۔ لہٰذا مجھ سے اب ایک تحریر اسٹامپ پر لکھ کر رجسٹری کرائی گئی او راس میں میں نے یہ لکھ دیا کہ میں عرصہ ہوا مسلمان ہو چکا ہوں اور میری پہلی بیوی سرلا دیوی جو ہندو ہے، اس سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔ نہ میں اس کا شوہر اور نہ وہ میری بیوی۔ اب غور فرمائیے کہ یہاں تو یہ تحریر اور وہاں وہ غریب بے خبر گھر کی مالکہ بنی بیٹھی ہے۔ آپ کہیں گے کہ میں نے ایسی تحریر کیوں لکھی؟ جواب یہ کہ زبردست کا ٹھینگا سر پر! نہ کیسے لکھتا۔ علاوہ اس تحریر کے ساتھ ہی یہ تحریر بھی مجھ سے لکھوا لی کہ میں نے دھوکا دے کر شادی کر لی اور میں گنہگار اور خطاوار اور قابل سزا ہوں اور آپ کو اختیار ہے کہ اس دھوکہ دہی پر مجھے سزا دلوا دیں۔

میں نے یہ بھی بذریعہ اس تحریر کے تسلیم کرلیا کہ فلاں فلاں میں فلاں بات میں نے جھوٹ اور دھوکے سے لکھی اور یہ دھوکا دہی محض عالم کے ساتھ نکاح کرنے کی غرض سے تھی۔ یہ بھی تسلیم کرلیا کہ محض فریب اور دھوکا دینے کی نیت سے میں نے اپنی اصلیت چھپائی اور اپنے دوسرے فرضی عزیزوں کو مسلمان بتایا اور یہ سب فریب دہی میں نے محض عالم کے ساتھ نکاح کرنے کے لیے کی اور میں خطاوار اور قصور وار ہوں۔ نیز توہین اور خرچہ اور نقصان و ایذا رسانی کی تلافی بھی میرے ذمے ہے اور عالم اور ان کے والد کو اختیار ہے کہ جب چاہیں مجھے سزا دلا سکتے ہیں اور تلافی پر بھی مجبور کر سکتے ہیں۔

اور اس تحریر کے بعد ایک دوسری رجسٹری دستاویز کے ذریعہ اپنی جائیداد سکنی لاہور قیمتی پندرہ ہزار بعوض مہر اپنی زوجہ عالم کے حق میں مکفول کی اور وعدہ کیا کہ قبضہ لاہور چل کر دلا دوں گا۔ ایک دوسری دستاویز کے ذریعہ اپنی زوجہ عالم کے حق میں بطور گزر خرچ پانچ سو روپیہ ماہوار لکھے اور اس کی ادائیگی کی سبیل میں بقیہ جائداد کو مکفول کیا اور قبضہ اپنی زوجہ عالم کو لاہور چل کر دلا دینے کو کہا۔ تیسری دستاویز کے ذریعہ اپنےخسر صاحب کو اپنا محتار عالم مقرر کیا اور اپنی ساری جائیداد منقولہ و غیر منقولہ پر کامل اختیار اور انتظام دے دیا۔ اور اب یہ تمام دستاویزیں لکھ لکھ کر خسر صاحب میرے ساتھ لاہور چلنے کو ہوئے تاکہ میری پہلی بیوی کی مکمل علیحدگی اور جائیداد پر قبضہ کر کے قصہ ختم کر سکیں۔

جیسا کہ میں عرض کر چکا، ان دستاویزات کو لکھ کر میں قتل ہونے سے بچا۔ دیکھا جائے تو میں نے بھی ستم کیا تھا۔ آگ سے کھیل رہا تھا۔ خان صاحب تو ان دستاویزات کے لکھ دینے سے مجھ سے تو راضی کیا ہوتے لیکن مجھے قتل نہ کرنے پر راضی ہوگئے مگر عالم کا اطمینان بھی تو کرنا تھا۔ انگلش خون میں افغانی آمیزش! اور اِدھر سچ پوچھیے تو میں پھر ایک لالہ ٹھہرا۔ مجھے عالم ہی نے بچایا تھا اور سچ پوچھیے تو مجھے عالم ایسی عزیز اور پیاری تھی کہ میں اسے چھوڑنے کا یا اسے رنج پہنچانے کا خیال بھی نہ کرسکتا۔ ایسی غیور اور جانباز لڑکی اور ایسی محبت کرنے والی اور ایسی خوبصورت عورت سے کیسے نہ محبت ہو۔ پھر عالم کی یہ کیفیت کہ سچ پوچھیے تو وہ نہ میری جائیداد چاہتی تھی نہ دستاویزات۔ وہ تو مجھے چاہتی تھی اور اپنے مذہب کو۔ میرا ہندو ہو جانا یا مسلمان نہ ہونا اس کے لیے ایسا تھا کہ دنیا میں کوئی شے اس کی تلافی نہ کر سکتی تھی۔ لہٰذا عالم کو راضی کرنا دو طرح مجھ پر فرض آیا۔ ایک تو محبت کے لیے اور دوسرے اپنی جان کی حفاظت کے لیے۔

ایک محبت کرنےوالی سچی اور پاکباز بیوی کو رضامند کر لینا، ایک جھوٹے شوہر کے لیے بہت آسان ہے۔ چنانچہ میں نے عالم کو نہ صرف راضی کر لیا بلکہ اس نے ٹھیکہ لے لیا کہ بشرطیکہ میں ہندو نہ ہو جاؤں یعنی بدستور مسلمان رہوں، میری جان قطعی محفوظ رہے گی۔ اس حادثے کے تیسرے ہی روز لاہور جانا پڑا۔ میری پوزیشن کی نزاکت کا اندازہ لگانا آسان ہے۔ مگر نہیں واقعات ہی سن لیجیے۔

خان صاحب مع اپنے دو خطرناک دوستوں کے مع خنجراور ریوالور کے میرے ساتھ تھے۔ ہم سب مل کر گھر پہنچے۔ یہاں پہنچے جو سہی تو خان صاحب کا پارہ چڑھ گیا۔ کہیں ہندو کا گھر چھپائے چھپتا ہے اور پھر جب میں مسلمان ہوچکا تو یہاں پر ’’ہندو رواج‘‘ چہ معنی دار۔ نوکروں کی دھوتیاں اور گول لوٹے ہی دیکھ کر خان صاحب چمک گئے، پھر یہ کیا معاملہ؟ بیوی گھر میں ہے مگر جواب کون دے۔ میں گھر میں جو گیا تو اپنی دل کی کلی یعنی رساکش نمبر 1 کو پھول کی طرح کھلا پایا۔ مگر مجھے محبت جتانے کی فرصت کہاں۔ میں نے دولفظوں میں مصیبت بیان کی۔ ایک غلطی ہوگئی ہے اور جان جوکھم میں پڑگئی تو ایسا ایسا کرنا پڑا ہے۔ بڑے خونی سے سابقہ پڑا ہے، اب بہتر کہ مجھے بچاؤ۔ یعنی اس وقت چوں نہ کرو اور عارضی طور پر اپنے میکے چلی جاؤ۔ ہندو بیوی بھی کتنی غریب اور بے کس ہوتی ہے مگر اس کے یہ معنی تو نہیں کہ سرلا مجھ سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

یہاں یہ ضرورت نہیں کہ یہ بتاؤں کہ اس کا یہ سن کر حال کیا ہوا۔ اس نے خود گھبرا کر مجھے لعن طعن کی۔ مگر فوراً ہی میری تجویز کے سامنے کس انداز سے سر تسلیم خم کیا ہے کہ میں نے اس کا سر چوم لیا۔ بیچاری حواس باختہ ہوکر گھبرا کر بولی، ’’جائیداد روپیہ سب تمہارا ہے۔ تم نے دے دیا۔ خوب کیا۔ سب دے دو مگر جان چھڑاؤ۔ اب رہ گئے تم۔ تو تم میرے ہو اور میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے لپک کر میرا کوٹ پکڑ لیا، ’’میں نہیں جانے دوں گی۔۔۔ نہ جاؤ اس خوفناک پٹھان کے پاس۔۔۔ وہ تمہیں مار ڈالے گا۔۔۔ میں نہیں جانے دوں گی۔۔۔ منیب جی کو بلالو اور جائیداد وغیرہ کے بارے میں جو جی چاہے کرو۔ کہہ دو ان سے کہ تم جاؤ۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر رونا شروع کیا۔

اب باہر عجیب معاملہ۔ منیب جی احمق نے گویا خان صاحب کے غصے پر دھار رکھ دی۔ قصہ کو یوں مختصر کرتا ہوں کہ سرلا لپٹ گئی اور اس نے نہ چھوڑا۔ اِدھر خان صاحب بگڑ کھڑے ہوئے۔ نوکروں کی کس کی مجال تھی جو ان کی خونی آنکھوں سے آنکھ ملا سکتا۔ گڑبڑ بڑھی، سرلا کے چچازاد بھائی کو کوئی بلانے دوڑا مگر خان صاحب کو یہ شبہ ہو گیا کہ میں چھپ رہا ہوں۔ وہ غصے میں گھر کے اندر گھس پڑے۔ سرلا میرا دامن پکڑے کھڑی رو رہی تھی کہ میں خان صاحب کی صورت دیکھ کر لرز گیا۔ مگر وا ری بیوی۔ اِدھر خان صاحب گرجے ہیں اور اُدھر سرلا جان پر کھیل کر لپکی خان صاحب کی طرف، ایک لکڑی لے کر، جو منہ میں آیا سناتی ہوئی۔

’’ٹھیر جو جا کم بخت۔۔۔ آمجھے مار۔۔۔‘‘ اور پہنچتے پہنچتے لکڑی جو سنبھالی ہے تو وہ ایسے بدحواس ہو کر بھاگے ہیں کہ گرتے گرتے بچے۔ مگر اس کے یہ معنی تھوڑی تھے کہ خان صاحب دب گئے، وہ ایک کمزور عورت کے سامنے آنا نہیں چاہتے تھے اور انہوں نے جھٹ میرے لیے ریوالور نکال لیا مجھے مارنے کو اور میں نے خیریت اسی میں سمجھی کہ سرلا کو جھٹک کر خان صاحب کے پیر پکڑ لوں۔ چیل کی طرح جھپٹ کر خان صاحب مجھے باہر لے گئے۔ میرے سالے صاحب بھی آگئے اور ’’رساکشی‘‘ شباب پر پہنچی مگر خان صاحب کی جیت رہی، مجھے گرفتار کر کے لے گئے۔ غلطی خود ان کی تھی، میں منع کرتا تھا کہ گھر نہ چلیے۔ ضرورت ہی نہ تھی۔ وہ نہ مانے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میں اب بھی قتل نہیں ہوا!

قصے کو مختصر کرتا ہوں۔ خان صاحب نے ایک دعویٰ میری طرف سے سرلا کے خلاف دائر کرایا۔ بابت استقرار حق بدیں امر کہ میں مسمی نور محمد مسلمان ہوں اور سرلا دیوی اب میری بیوی نہیں رہی اور میرا اس سے اب کوئی تعلق نہیں رہا اور نہ میں اس کی کفالت کا ذمہ دار ہوں۔ اس کے جواب میں سرلا نے بھی دعویٰ استقرار حق بدیں امر کہ مسمی شنکر لال حال نور محمد از روئے ہندو دھرم شاستر میرا جائز شوہر ہے۔ مجھے خرچ وغیرہ دینے سے منکر ہے اور مجھے زوجیت سے اپنی خارج کہتا ہے۔ لہٰذا ہزار روپیہ ماہوار خرچ گزارہ اور رہائش کو مکان دلایا جائے اور حکم امتناعی دوامی اس امر کا صادر ہو کہ مجھے اپنی زوجیت سے خارج نہ کرے۔

یہ دونوں دعوے سرگرمی سے دائر کر دیے گئے اور رساکشی زوروں میں شروع ہو گئی۔ تمام دستاویزات جو ’’ایکس پور‘‘ میں بحق عالم رجسٹری کرائی گئی تھیں، ان کی از سرنو لاہور میں پھر رجسٹری ہوئی اور جملہ جائیداد غیر منقولہ کے کاغذات اور قبضہ خان صاحب نے بہ نوک خنجر مجھ سے لے لیا اور دونوں طرف سے مقدمہ کی سرگرمی سے پیروی ہونے لگی۔ آپ کہیں گے کہ میں نے سرلا کے ساتھ ظلم کیا۔ ظلم بے شک کیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا قتل ہو جاتا؟ یا عالم کے ساتھ ظلم کرتا۔ آخر کرتا کیا؟

مگر اب میری عقلمندی کی تعریف کیجیے کہ ایک طرف تو یہ رساکشی ہو رہی ہے اور دوسری طرف میں سرلا سے بھی ملتا ہوں اور کیسے کیسے غریب کو سمجھاتا ہوں کہ خدا کی بندی صبر کر، مت گھبرا۔ میں اول تیرا اور آخر تیرا۔ میں مسلمان نہیں ہوں۔ تو گھبرا مت اطمینان رکھ مگر وہ بیچاری کیا کرے۔ مسلمانوں کو اور پٹھانوں کو سینکڑوں کوسنے دیتی ہے اور روتی ہے اور ہار کر غریب آخر یہی کہتی ہے کہ میں تمہاری لونڈی ہوں مجھے چھوڑنا مت اور میں جواب میں کہتا ہوں کہ نیک بخت تو میری اور میں تیرا۔ ان مقدموں اور جائیداد کے جھگڑوں کو ہونے دے۔ بس میری جان کی خیرمنا۔ جو اس خان سے جان بچی تو تیرا ہی ہوں۔

ادھر تو یہ حال اور اُدھر والوں کو کچھ اطمینان تو ہوا تھا مگر بہت جلد پتہ چل گیا کہ میں چھپ چھپ کر سرلا سے ملتا ہوں۔ کوئی ثبوت ان کے پاس نہ تھا، لہٰذا میں انکار کر جاتا اور جانا ثابت ہوتا بھی تو بہانہ کر دیتا۔ خان صاحب نے اب یہ ترکیب کی تھی کہ مقدمے کی پیشی کے دن مجھے اپنے ساتھ لاہور لاتے تھے ورنہ ’’ایکس پور‘‘ میں اپنے ساتھ رکھتے تھے اور وہ بھی گویا زیر حوالات۔ لیکن میں نے کئی مرتبہ یہ کیا کہ کلکتے اور دوسری جگہ کا بہانہ کرکے لاہور سرلا کی دلجوئی کرکے سہارا دے کر لوٹ آیا۔ لیکن بات چھپ نہ سکتی تھی اور ایک دفعہ پکڑا گیا۔ خان صاحب نے تو خنجر دکھائے مگر عالم کا مارے رنج و غم کے برا حال ہو گیا۔ خان صاحب نے مجھ سے توبہ نامے اور اقرار نامے لکھائے کہ اب سرلا سے ملنے نہ جاؤں گا اور اگر جاؤں تو جو سزا چاہیں دیں اور پھر انہیں بھی توڑ دیا۔

ہر دفعہ خطا قبول کرکے عالم اور ان کے باپ کے آگے سر جھکا دیتا کہ حاضر ہوں۔ جو سزا چاہیں دے لیں۔ سچ مچ سرخان صاحب کے پیروں میں رکھ دیتا۔ ان کے ملنے والوں کے آگے ہر دفعہ ہاتھ جوڑتا اور ہر دفعہ وعدے کرتا اور پھر توڑ دیتا۔ در اصل ناممکن تھا کہ میں رساکش نمبر 1 کو بالکل ہی چھوڑ دوں۔ ارادہ کرتا، پھر ایک غیبی طاقت سے مجبور ہو جاتا۔ وہ بے قصور تھی۔ وہ بڑے زور و شور سے کھینچنے والی ’’رساکش‘‘ تھی جس نے رسا پہلے پکڑا تھا۔ اس نے اپنی زندگی میرے پیچھے تج دی تھی۔ خطا میری اور وہ معافی مانگتی! بھلا بتائیے تو میں اس فرشتہ سیرت بیوی کو کیسے چھوڑ دیتا۔

یہ کیسے ممکن تھا کہ کبھی کبھار بھی اس سے نہ ملوں اور اِدھر خان صاحب اور عالم کا یہ خیال کہ ذرا ڈھیل ڈالی نہیں کہ میں پھر ہندو ہوا۔ بلکہ خان صاحب تو کہتے تھے کہ میں مسلمان ہی نہیں۔ اپنے کو کہتے تھے کہ مولویوں کے فتاوے سے مجبور ہوں ورنہ کب کا قتل کر کے قصہ پاک کرتا۔ ایک دفعہ جب میں کئی بار وعدہ خلافی کر چکا تو خان صاحب نے یہ ارادہ کیا کہ طلاق لے لیں۔ مگر یہ سنتے ہی عالم کو غش پہ غش آنے لگےاور چھوٹی سالی نے الگ رو رو کر برا حال کر لیا۔ در اصل عالم مجھے نہیں چھوڑ سکتی تھی۔ لہٰذا یہ خیال ہی ترک کرنا پڑا۔ حالانکہ اگر ایسا کرتے تو میری سب جائیداد، مہر اور اقرار ناموں اور تاوان وغیرہ میں ان کو مل سکتی تھی۔ قصہ مختصر جہاں تک میری ذات کا تعلق تھا میں نے سرلا سے ملنا بند نہ کیا اور ہر وعدہ خلافی پر کوئی نہ کوئی نئی تحریر نئی دستاویز مرتب ہوتی تھی۔ مگر میں تو عہد نامہ توڑنے ہی کے لیے لکھتا تھا۔

اب کچھ مقدمے کا حال سنیے۔ سرلا نے بیان دیے کہ وہ میری بیوی ہے اور دھرم شاستر کی رو سے شادی شدہ ہے اور مجھے نہیں چھوڑنا چاہتی۔ میں نے یہ بیان دیا کہ میں مسلمان ہوگیا ہو ںاور اب یہ میری زوجہ نہیں رہی۔ دونوں مقدمے میں ہارا۔ عدالت نے یہ فیصلہ دیا کہ ہندو قانون کی رو سے میاں اور بیوی میں طلاق نہیں ہو سکتی۔ خواہ میاں اپنا مذہب چھوڑ دے یا بیوی اپنا مذہب چھوڑ دے۔ ہندو دھرم شادی کو معاہدہ نہیں مانتا بلکہ فریقین کا تعلق عمر بھر کے لیے مذہب کی بنیاد پر قائم کرتا ہے جو کسی طرح بھی نہیں ٹوٹ سکتا، لہٰذا ہم فیصلہ دیتے ہیں کہ مسماۃ سرلا دیوی مسمی نور محمد سابق سیٹھ شنکر لال کی جائز بیوی ہے اور رہے گی اور گزارہ اور رہائش کے لیے مکان پانے کی مستحق ہے۔ گزارہ ہم پانچ سو روپیہ ماہوار مقرر کرتے ہیں اور جس مکان میں وہ رہتی ہے، اس پر تاحیات قابض رہے گی۔ رہ گیا یہ امر کہ ہم نور محمد کو حکم دیں کہ وہ سرلا دیوی کو بطور اپنی زوجہ کے رکھے تو بوجہ تبدیل مذہب ہو جانے کے ہم اس بارے میں کوئی خاص حکم صادر نہیں کرتے اور فریقین کو ان کی مرضی پر چھوڑتے ہیں۔

جو دعویٰ میری طرف سے ہوا تھا وہ مع خرچہ خارج ہوا اور اس میں یہ طے ہوا کہ اس معاملے میں شرع محمدیؐ کا قانون کہ ایک مسلمان شوہر ایک ہندو بیوی کا جائز شوہر نہیں ہو سکتا، ناقابل نفاذ ہے۔ لہٰذا حکم ہوا کہ مسمی نور محمد کی بیوی سرلا دیوی ہے اور بدستور رہے گی۔ ان دونوں مقدمات کی ہم نے ہائی کورٹ تک اپیل کی اور ہار گئے اور معلوم ہوا کہ ہندوستان کے تمام ہائی کورٹوں کا متفقہ فیصلہ یہی ہے۔ یہ تھا وہ اٹل فیصلہ جس نے طے کر دیا کہ ’’رساکشی‘‘ زور میں جاری ہے۔ خان صاحب پچھڑ کر رہ گئے۔ عالم پست ہو کر رہ گئیں اور سرلا دیوی اکڑ کر رہ گئیں۔ رہ گیا میں، تو حضرت ایک ’’رساکشی‘‘ کے مضبوط رسے کی طرح تن کر رہ گیا اور دونوں طرف کے ’’رساکش‘‘ اب لگا رہے ہیں زور ڈٹ ڈٹ کے۔

خان صاحب نے بدحواس ہو کر دو تین اور دستاویزات لکھوائیں۔ مجھے بھلا کیا انکار ہو سکتا تھا، فوراً لکھ دیں۔ یہ تمام دستاویزات ایسی ہیں کہ ان کی خلاف ورزی کرکے میں ایک منٹ جیل سے باہر نہیں رہ سکتا۔ مگر سوال یہ ہے کہ میں تو جیل جانے کو تیار ہوں اور خاں صاحب مجھے کب کا جیل پہنچا چکے ہوتے جو کہیں عالم بچانے والی بیچ میں نہ ہوتی۔

اب اس کے بعد نوبت یہ پہنچی کہ عالم بھی جزبز رہنے لگیں اور تازہ ترین دستاویزیں ایسی خطرناک تھیں اور خان صاحب کا غصہ اور عالم کی نظریں ایسی ترچھی ہوئیں کہ میں نے سرلا سے ہر طرح قطع تعلق کر لیا۔ ایسا کہ خان صاحب اور عالم دونوں راضی ہوگئے اور تمام شبہات رفع ہوگئے اور خود غور کیجیے کہ میں بقول خود خان صاحب کہاں تک وعدہ خلافی کرتا۔ آخرش عالم کی محبت اور خان صاحب کی خوفناک آنکھ کی چشم پوشی سے شرمندہ ہو کر مسخر ہو گیا اور حلف جو اٹھایا تھا کہ اب کبھی سرلا کی طرف رخ بھی نہ کروں گا اس کا پاس ایسا کیا کہ خود خان صاحب قائل ہوگئے کہ اب میری نگرانی کی چنداں ضرورت نہیں رہی۔

عرض ہے کہ جب معاملات خوشگواری کے اس اطمینان کے درجہ کو پہنچے تو اللہ نے کرم کیا۔ خان صاحب کو خدا نے چاند سا نواسہ عطا فرمایا اور اس بچہ کا چھٹے دن عقیقہ ہوا یعنی سر گھوٹا گیا۔ مگر غور تو کیجیے کہ سر تو بیٹے کا گھٹے اور اولے پڑیں باپ کے سر پر، یعنی اسی دن شام کو یہ خبر پہنچی کہ میری جان سے پیاری سرلا دیوی جی نے بھی کرم فرمایا ہے اور وہ مضمون کہ یک نہ شد دو شد، اللہ نے ایک چھوڑ دو بیٹے ایک دم جو عنایت کیے ہیں تو بدہضمی تو آپ سمجھیں ویسے ہی بری ہوتی ہے اور پھر خوشی کی۔ نتیجہ یہ کہ غنیمت سمجھیے جو خان صاحب نے نواسے کو یتیم نہیں کر دیا اور میں بچ گیا اور پھر وہی رساکشی!

اور اب اس رساکشی کا کیا حال ہے۔ اس سے اندازہ لگ سکتا ہے کہ سرلا کے پاس جاتا ہوں تو وہ کہتی ہے کہ تم تو مسلمان ہو، ہرگز ہندو نہیں ہو۔ اور عالم سے لاکھ کہتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں خدارا یقین کرو مگر وہ نہیں مانتی۔ آپ جانیں عورت ذات چیز ہی ایسی ہے۔ چنانچہ اب تو یہ مضمون ہے،

عالمِ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور سرلا یہ سمجھتی ہے مسلماں ہوں میں

اور میں دل میں ہنستا ہوں اور پریشان ہوکر دل میں کہتا ہوں،

چہ تدبیر اے مسلمانان کہ من خود را نمی دانم
نہ ترساؤ یہودی ام نہ گبرم نے مسلمانم

قصہ مختصر رساکشی جاری ہے۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.