رسم و رواج کی پابندی کے نقصانات
اپنے اس آرٹیکل کو بعض بڑے بڑے حکیموں کی تحریروں سے اخذ کر کر لکھتے ہیں۔ کیا عمدہ قول ایک بڑے دانا کا ہے کہ ’’انسان کی زندگی کا منشایہ ہے کہ اس کے تمام قوی اور جذبات نہایت روشن اور شگفتہ ہوں اور ان میں باہم نامناسبت اور تناقض واقع نہ ہو بلکہ سب کا مل کر ایک کامل اور نہایت متناسب مجموعہ ہو۔‘‘ مگر جس قوم میں کہ پرانی رسم و رواج کی پابندی ہوتی ہے یعنی ان رسموں پر نہ چلنے والا مطعون اور حقیر سمجھا جاتا ہے وہاں زندگی کا منشا معلوم ہو جاتا ہے۔
ایک اور بڑے دانا شخص کی رائے کا یہ نتیجہ ہے کہ آزادی اور اپنی خوشی پر چلنا جہاں تک کہ دوسروں کو ضرر نہ پہونچے، ہر انسان کی خوشی اور اس کا حق ہے۔ پس جہاں کہیں معاشرت کا قاعدہ جس کا کوئی چلتا ہے، خاص اس کی خصلت پر مبنی نہیں ہے بلکہ اگلی روایتوں پر یا پرانی رسم و رواج پر مبنی ہے تو وہاں انسانوں کی خوشحالی کا ایک بڑا جزو موجود نہیں ہے اور جو کہ خوشحالی ہر فرد بشر کی اور نیز کل کی ترقی کا بہت بڑا جزو ہے تو اس ملک میں جہاں رسموں کی پابندی ہے وہ جزو بھی ناپید ہوتا ہے۔
کسی شخص کی یہ رائے نہ ہوگی کہ آدمیوں کو بجز ایک دوسرے کی تقلید کے اور کچھ مطلق نہ کرنا چاہیے۔ اور نہ کوئی شخص یہ کہے گا کہ آدمیوں کو اپنی اوقات بسری کے طریقے اور اپنے کاروبار کی کارروائی میں اپنی خوشی اور اپنی رائے کے مطابق کوئی بھی نہ کرنی چاہیے۔ سیدھا طریقہ یہ ہے کہ آدمی کو اس کی جوانی میں اس طرح سے تعلیم ہونی چاہیے کہ اور لوگوں کے تجربوں سے جو نتیجے تحقیق ہو چکے ہیں ان کے فوائد سے مستفید ہو او ر پھر جب اس کی عقل پختگی پر پہنچے تو خود ان کی بھلائی اور برائی کو جانچے۔
بے سوچے اور بے سمجھے رسوما ت کی پابندی کرنے سے گو وہ رسمیں اچھی ہی کیوں نہ ہوں، آدمی کی ان صفتوں کی ترقی اور شگفتگی نہیں ہوتی جو خدائے تعالیٰ نے ہر آدمی کو جدا جدا عنایت کی ہیں۔ ان قوتوں کا برتاؤ جو کسی چیز کی بھلائی برائی دریافت کرنے اور کسی بات پر رائے دینے اور دو باتوں میں امتیاز کرنے اور عقل و فہم کو تیز رکھنے بلکہ اخلاقی باتوں کی بھلائی اور برائی تجویز کرنے میں مستعمل ہوتی ہیں، صرف ایسی ہی صورت میں ممکن ہے جب کہ ہم کو ہر بات کے پسند یا ناپسند کرنے کا اختیار حاصل ہو۔ جو شخص کوئی بات رسم کی پابندی سے اختیار کرتا ہے وہ شخص اس بات کو پسند یا نا پسند نہیں کرتا۔ اور نہ ایسے شخص کو اس چیز کی تمیز یا خواہش میں کچھ تجربہ ہوتا ہے، اخلاقی اور عقلی قوتوں کی ترقی اس صوت میں حاصل ہوتی ہے جب کہ وہ استعمال میں لائی جاویں ان قوتوں کو اوروں کی تقلید کرنے سے کسی بات کی مشق حاصل نہیں ہوتی بلکہ ایسے شخص کے لیے بجز ایسی قوت تقلید کے جو بندر میں ہوتی ہے اور کسی قوت کی حاجت نہیں۔
البتہ جو شخص اپنا طریقہ خود پسند کرتا ہے وہ اپنی تمام قوتوں سے کام لیتا ہے۔ زمانہ حال پر نظر کرنے کے لیے اس کو قوت تحقیق در کار ہوتی ہے اور انجام کار پر غور کے لیے قوت تجویز اور اس کا تصفیہ کرنے کو قوت استقرائ اور بھلا برا ٹھہرانے کو قوت امتیاز اور سب باتوں کے تصفیہ کو بعد اس پر قائم رہنے کے لیے قوت استقلال، اور یہی سب کام ہیں جو انسان کے کرنے کے لائق ہیں۔ آدمی مثل ایک کل کے نہیں ہے کہ جو اس کے واسطے مقرر کر دیا ہے اسی کو انجام دیا کرے، بلکہ وہ ایک ایسا درخت ہے جو ان اندرونی قوتوں سے جو خدا نے اس میں رکھی ہیں اور جن کے سبب وہ زندہ مخلوق کہلاتا ہے ہر چہار طرف پھیلے اور بڑھے، پھولے اور پھلے۔
جو امر کہ پسندیدہ اور تسلیم کے قابل ہے، وہ یہ ہے کہ لوگ اپنے فہم اور اپنی عقل سے کام لیں اور رسم و رواج کی پابندی بھی ایک معقول طور پر رکھیں یعنی جو عمدہ و مفید ہیں ان کو اختیار کریں، جو قابل اصلاح ہوں ان میں ترمیم کریں اور جو بری اور خراب ہوں ان کی پابندی چھوڑ دیں، نہ یہ کہ اندھوں کی طرح یا ایک کل کی مانند ہمیشہ اسی سے لپٹے رہیں۔
یہ بات خیال کی جاتی ہے کہ رسومات کی پابندی نہ کرنے سے آدمی خراب کاموں اور بری باتوں میں مبتلا ہو جاتا ہے، مگر یہ بات صحیح نہیں ہے اس لیے کہ انسان کی ذات میں جیسے کہ خراب کام کرنے کی قوتیں اور جذبے ہیں، ویسے ہی ان کے روکنے کی قوتیں اور جذبیں بھی ہیں۔ مثلاً ایمان یا نیکی جو ہر انسان کے دل میں ہے۔ پس خراب کام ہونے کا یہ باعث نہیں ہے کہ اس نے رسومات کی پابندی نہیں کی بلکہ یہ باعث ہے کہ اس نے ایک قسم کی قوتوں اور جذبوں کو شگفتہ اور شاداب اور قوی کیا ہے اور دوسری قسم کی قوتوں اور جذبوں کو پژمردہ اور ضعیف۔ اگر رسومات کی پابندی نہ رکھنے کے ساتھ انسان کا ایمان ضعیف نہ ہو، یا وہ دلی نیکی جو ہر انسان کے دل میں ہے پژمردہ نہ ہو تو بجز عمدہ اور پسندیدۃ باتوں کے اور کسی بات کا ارتکاب نہ ہو۔
ہمارے زمانہ میں ہر شخص اعلیٰ سے لے کر ادنیٰ تک رسم و رواج کا ایسا پابند ہے جیسے کوئی شخص ایک بڑے زبردست حاکم کے نیچے اپنی زندگی بسر کرتا ہو، کوئی شخص یا کوئی خاندان اپنے دل سے یہ بات نہیں پوچھتا کہ ہم کو کیا کرنا چاہیے اور ہمارے مناسب یا ہماری پسند اور ہماری پسند کے لایق کیا بات ہے یا جو عمدہ صفتیں مجھ میں ہیں، ان کا ظہور نہایت عمدگی سے کس طرح ممکن ہے اور کون سی بات ان کی ترقی اور شگفتگی کی معاون ہے بلکہ وہ اپنے دل سے یہ پوچھتے ہیں کہ میری حالت اور رتبہ اور مقدور کے آدمی کس رسم و رواج کے مطابق کام کر تے ہیں۔ اور اگر کوئی اس سے بھی زیادہ بےوقوف ہوا تو وہ اپنے دل سے اس سے بھی زیادہ بد تر سوال کرتا ہے اور یوں پوچھتا ہے کہ جو لوگ مجھ سے برتر ہیں اور رتبہ اور مقدور میں زیادہ ہیں وہ کن رسموں کو بجا لاتے ہیں تاکہ یہ شخص بھی ویسا ہی کر کر انہی کی سی شان میں شامل ہو۔
اس بات سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ جو لوگ اس طرح پر رسومات کو بجا لاتے ہیں وہ اپنی خواہش اور مرضی سے ان رسومات کو اور چیزوں پر ترجیح دیتے ہیں اور ترجیح دے کر پسند کرتے ہیں۔ نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کو بجز ایسی بات کے جو رسمی ہوتی ہیں اور کسی بات کی خواہش کرنے کا موقع یا اتفاق نہیں ہوتا اور اس لیے طبیعت خود متحمل او رمطیع رسموں کی پابندی کی ہوجاتی ہے۔ یہاں تک کہ جو باتیں د ل کی خوشی کی کرنی ہوتی ہیں ان میں بھی اوروں کے مطابق کام کرنے کا خیال اول دل میں آتا ہے۔
غرض کہ ان کی پسند وہی ہوتی ہے جو بہت سے لوگوں کی ہے۔ وہ صرف ایسی باتوں کے پسند کرنے پر راغب ہوتے ہیں جو عام پسند ہوں اور مذاق اور اصلی سلیقہ جو رسم و رواج کے مطابق نہ ہو، اس سے ایسی ہی گریز کی جاتی ہے جیسے کہ جرموں سے، یہاں تک کہ اپنی خاص طبیعت کی پیروی نہ کرتے نہ کرتے ان میں اپنی طبیعت ہی باقی نہیں رہتی کہ جس کی پیروی کریں اور ان کی ذاتی قوتیں بالکل پذمردہ اور بے کار رہنے کے سبب بالکلیہ ضائع ہو جاتی ہیں اور وہ شخص اپنی دلی خواہش کرنے اور ذاتی خوشی اٹھانے کے قابل نہیں رہتے اور عموماً ایسی طبع زاد رائیں یا خیالات نہیں رکھتے جو خاص ان کی اصلی خوشی سے مخصوص ہوں۔ اب غور کرنا چاہیے کہ انسان کی ایسی حالت پسندیدہ ہو سکتی ہے یا نہیں۔
رسومات جو مقرر ہوئی ہیں، غالباً اس زمانہ میں جب کہ وہ مقرر ہوئیں، مفید تصور کی گئی ہوں مگر اس بات پر بھروسہ کرنا کہ در حقیقت وہ ایسی ہی ہیں محض غلطی ہے۔ ممکن ہے کہ جن لوگوں نے ان کو مقرر کیا ان کی رائے میں غلطی ہو، ان کا تجربہ صحیح نہ ہو یا ان کا تجربہ نہایت محدود اور صر ف چند اشخاص سے متعلق ہو یا ا س تجربہ کا حال صحیح صحیح بیان ہوا ہو۔ یا وہ رسم اس وقت اور اس زمانہ میں مفید ہو یا وہ رسم جن حالت پر قائم کی گئی تھی، کسی شخص کی وہ حالت نہ ہو۔ غرض کہ رسموں کی پابندی میں مبتلا رہنا ہر طرح پر نقصان کا باعث ہے۔ اگر کوئی نقصان نہ ہو تو یہ نقصان تو ضرور ہے کہ آدمی کی عقل اور دانش اور جودتِ طبع اور قوت ایجاد باطل ہو جاتی ہے۔
یہ بات بے شک ہے کہ کسی عمدہ بات کی ایجاد کی لیاقت ہر ایک شخص کو نہیں ہوتی، بلکہ چند دانا شخصوں کو ہوتی ہے، جن کی پیروی اور سب لوگ کرتے ہیں لیکن رسم کی پابندی اور اس قسم کی پیروی میں بہت بڑا فرق ہے۔ رسومات کی پابندی میں اس کی بھلائی و برائی ومفید و غیر مفید و مناسب حال و مطابق طبع ہونے یا نہ ہونے کا مطلق خیال نہیں کیا جاتا اور بغیر سوچے سمجھے اس کی پابندی کی جاتی ہے اور دوسری حالت میں بوجہ پسندیدہ ہونے کے اور اس لیے دوسری حالت میں جو قوتیں ترقی کی انسان میں ہیں وہ معدوم و مفقود نہیں ہوتیں الا پہلی حالت میں معدوم و نابود ہو جاتی ہیں۔
رسم کی پابندی ہر جگہ انسان کی ترقی کی مانع و مزاحم ہے۔ چنانچہ وہ پابندی ایسی قوت طبعی کے جس کے ذریعہ سے بہ نسبت معمولی باتوں کے کوئی بہتر بات کرنے کا قصد کیا جاوے برابر رہتی ہے اور انسان کی تنزلِ حالت کا اصلی باعث ہوتی ہے۔ اب اس رائے کو دنیا کی موجودہ قوموں کے حال سے مقابلہ کرو۔ تمام مشرقی یا ایشیائی ملکوں کا حال دیکھو کہ ان ملکوں میں تمام باتوں کے تصفیہ کا مدار رسم و رواج پر ہے۔ ان ملکوں میں مذہب اور استحقاق اور انصاف کے لفظوں سے رسموں کی پابندی مراد ہوتی ہے۔ پس اب دیکھ لو کہ مشرقی یا ایشیائی قوموں کا جن میں مسلمان بھی داخل ہیں کیسا ابتر اور خراب اور ذلیل حال ہے۔
ان مشرقی یا ایشیائی قوموں میں بھی کسی زمانہ میں قوت عقل اور جو دت طبع اور مادہ ایجاد ضرور موجود ہوگا جس کی بدولت وہ باتیں ایجاد ہوئیں جو اب رسمیں ہیں اس لیے کہ ان کے بزرگ ماں کے پیٹ سے تربیت یافتہ اور حسن معاشرت کے فنون سے واقف پیدا نہیں ہوئے تھے بلکہ یہ سب باتیں انہوں نے اپنی محنت اور علم اور عقل اور جودت طبع سے ایجاد کی تھیں اور انہی وجوہات سے دنیا کی نہایت بڑی اور قوی اور مشہور قوموں سے ہو گئے تھے۔ مگر اب ان کا حال دیکھو کہ کیا ہے؟ اسی رسومات کی پابندی سے ان کا مآل یہ ہوا ہے کہ اب وہ ایسی قوموں کے محکوم ہیں اور ایسے لوگوں کی آنکھوں میں ذلیل ہیں جن کے آباء و اجداد اس وقت جنگلوں میں آوارہ پڑے پھرتے تھے، جس وقت ان قوموں کے آباء و اجداد عالی شان محلوں میں رہتے تھے اور بڑے بڑے عبادت خانے اوار مکانات شاہی اور شہنشاہی محل بنواتے تھے۔ اس کا سبب یہی تھا کہ اس زمانہ میں ان قوموں میں رسم کی پابندی قطعی نہ تھی اور جو کسی قدر تھی تو اس کے ساتھ ہی آزادی اور ترقی کا جوش ان میں قایم تھا۔
تواریخ سے ثابت ہے کہ ایک قوم کسی قدر عرصہ تک ترقی کی حالت پر رہتی ہے اور اس کے بعد ترقی مسدود ہو جاتی ہے۔ مگر یہ دیکھنا چاہیے کہ یہ ترقی کب مسدود ہوتی ہے۔ یہ اسی وقت مسدود ہوتی ہے جب کہ اس قوم میں سے وہ قوت اٹھ جاتی ہے جس کے سبب سے نئی نئی باتیں پیدا ہوتی ہیں اور ٹھیک ٹھیک مسلمانوں کا اس زمانہ میں یہی حال ہے بلکہ میں نے غلطی کی کیوں کہ ترقی مسدود ہونے کا زمانہ بھی گزر گیا اور تنزل اور ذلت و خواری کا زمانہ بھی انتہا درجہ کو پہنچ گیا ہے۔ ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ بات کہے کہ یورپ کی قوموں میں بھی جو اس زمانہ میں ہر قسم کی ترقی کی حالت میں شمار ہوتی ہیں، بہت سی رسمیں ہیں اور ان رسموں کی نہایت درجہ پر پابندی ہے تو وہ قومیں کیوں ترقی پر ہیں؟
یہ اعتراض سچ ہے اور در حقیقت یورپ میں رسموں کی پابندی کا نہایت نقصان ہے اور اگر اس کی اصلاح نہ ہوتی رہے گی جیسے کہ اب تک ہوتی رہتی رہی ہے تو ان کو بھی بدنصیبی کا دن پیش آوےگا مگر یورپ میں اور مشرقی ملکوں کی پابندی رسومات میں ایک بڑا فرق ہے۔ یورپ میں رسومات کی پابندی ایک عجیب اور نئی بات ہونے کو تو مانع ہے مگر رسومات کی تبدیلی کا کوئی مانع نہیں۔ اگر کوئی شخص عمدہ رسم نکالے اور سب لوگ پسند کریں، فی الفور پرانی رسم چھوڑ دی جائیگی اور نئی رسم اختیار کر لی جاوےگی اور اس سبب سے ان لوگوں کے قوائے عقلی اور حالت تمیز اور قوت ایجاد ضائع نہیں ہوتی۔
تم دیکھو کہ یہ پوشاک جو اب انگریزوں کی ہے ان کے باپ دادا کی نہیں ہے، بالکل اپنی پوشاک بدل دی ہے۔ ہر درجہ کے لوگوں کا جو مختلف لباس تھا اس رسم کو چھوڑ دیا گیا ہے اور ضرور سمجھا گیا ہے کہ ہر شخص ایک سا مثل اوروں کے لباس پہنے۔ اس وقت کوئی رسم یورپ میں ایسے درجہ پر نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی رسم اس کے بر خلاف مگر اس سے عمدہ ایجاد کرے اور لوگ اس پر اتفاق کریں اسی وقت تبدیل نہ ہو سکے اور اسی تبدیلی کے ساتھ ان کی ترقی بھی ہوتی جاتی ہے۔ چنانچہ نئی نئی کلیں ہمیشہ ایجاد ہوتی رہتی ہیں اور تا وقتیکہ ان کی جگہ بہتر کلیں ایجاد نہ ہوجاویں وہ بدستور رہتی ہیں۔ ملکی معاملات اور تعلیم میں بلکہ اخلاق میں بلکہ مذہب میں ہمیشہ ترقی کے خواہاں ہیں۔ پس یہ تصور کرنا کہ یورپ بھی مثل ہمارے مگر دوسری قسم کی رسموں میں مبتلا ہے، محض نادانی اور نا واقفیت کا سبب ہے۔
البتہ یورپ میں اور بالتخصیص انگریزوں میں جو بات نہایت عمدہ اور قابل تعریف اور لائق خواہش کے ہے اور درحقیقت بغیر اس کے کوئی قوم مہذب اور ترقی یافتہ نہیں ہو سکتی وہی بات اس کی تنزل کا باعث ہوگی۔ بشرطیکہ اس کی اصلاح نہ ہوتی رہے گی۔ اور وہ یہ ہے کہ تمام انگریز جو حبّ وطن میں نامی ہیں اس بات پر نہایت کوشش اور جاں فشانی کر رہے ہیں کہ کل قوم کے لوگ یکساں ہو جاویں اور سب اپنے خیالات اور طریقے یکساں مسائل اور قواعد کے تحتِ حکومت کر دیں اور ان کوششوں کا نتیجہ انگلستان میں روز بروز ظاہر ہو جاتا ہے۔ جو حالات کہ اب خاص خاص لوگوں اور فرقوں کے پائے جاتے ہیں اور جن کے سبب ان کی خاص خاص عادتیں قایم ہوئی ہیں وہ اب روز بروز ایک دوسرے کے مشابہ ہوتی جاتی ہیں۔
انگلستان میں اس زمانہ سے پہلے مختلف درجوں کے لوگوں اور مختلف ہمسایوں کے لوگ اور مختلف پیشہ والے گویا جدا جدا دنیا میں رہتے تھے یعنی سب کا طریقہ اور عادت جدا جدا تھی۔ اب وہ سب طریقے اور عادتیں ہر ایک کی ایسی مشابہ ہو گئی ہیں کہ گویا سب کے سب ایک ہی محلّہ کے رہنے والے ہیں۔ انگلستان میں بہ نسبت سابق کے اب بہت زیادہ رواج ہو گیا ہے کہ لوگ ایک ہی قسم کی تصنیفات کو پڑھتے ہیں اور ایک ہی سی باتیں سنتے ہیں اور ایک ہی سی چیزیں دیکھتے ہیں اور ایک ہی سے مقاموں میں جاتے ہیں اور یکساں باتوں کی خواہش رکھتے ہیں اور یکساں ہی چیزوں کا خوف کرتے ہیں اور ایک ہی سے حقوق اور آزادی سب کو حاصل ہے۔ اور ان حقوق اور آزادیوں کے قائم رکھنے کے ذریعہ بھی یکساں ہیں اور یہ مشابہت اور مساوات روز بروز ترقی پاتی جاتی ہے۔ اور تعلیم و تربیت کی مشابہت اور مساوات سے اس کو اور زیادہ وسعت ہوتی ہے۔
تعلیم کے اثر سے تمام لوگ عام خیالات کے اور غلبہ اور رائے کے پابند ہوتے جاتے ہیں اور جو عام ذخیرہ حقائق اور مسائل اور رایوں کا موجود ہے اس پر سب کو رسائی ہوتی ہے۔ آمد و رفت کے ذریعوں کی ترقی سے مختلف مقاموں کے لوگ مجتمع اور شامل ہوتے ہیں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ چلے جاتے ہیں اور اس سبب سے بھی مشابہت مذکور ترقی پاتی ہے۔ کارخانوں اور تجارت کی ترقی سے آسایش اور آرام کے وسیلے اور فائدے زیادہ شائع ہوتے ہیں اور ہر قسم کی عالی ہمتی بلکہ بڑی سے بڑی اولوالعزمی کے کام ایسی حالت کو پہنچ گئے ہیں کہ ہر شخص ان کے کرنے کو موجو دو مستعد ہوتا ہے۔ کسی خاص شخص یا گروہ پر منحصر نہیں رہا ہے، بلکہ اولوا لعزمی تمام لوگوں کی خاصیت ہوتی جاتی ہے اور ان سب پر آزادی اور عام رائے کا غلبہ بڑھتا جاتا ہے اور یہ تمام امور ایسے ہیں جیسے انگلستان کے تمام لوگوں کی رائیں اور عادتیں او ر طریق زندگی اور قواعد معاشرت اور امورات رنج و راحت یکساں ہوتے جاتے ہیں اور بلا شبہ ملک اور قوم کے مہذب ہونے کا اور ترقی پر پہنچنے کا یہی نتیجہ ہے اور ایسا عمدہ نتیجہ ہے کہ اس سے عمدہ نہیں ہو سکتا۔
مگر باوصف اس کے ہم اس نتیجہ کو بشرطیکہ اس کی اصلاح نہ ہوتی رہے بدعت تنزل قرار دیتے ہیں تو ضرور ہم کو کہنا پڑے گا کہ کیوں یہ عمدہ نتیجہ باعث تنزل ہوگا۔ سبب اس کا یہ ہے کہ جب سب لوگ ایک سی طبیعت اور عادت اور خیال کے ہو جاتے ہیں تو ان کی طبیعتوں میں سے وہ قوتیں جو نئی باتوں کے ایجاد کرنے اور عمدہ عمدہ خیالات کے پیدا کرنے اور قواعد حسن معاشرت کو ترقی دینے کی ہیں، زائل اور کمزور ہو جاتی ہیں اور ایک زمانہ ایسا آتا ہے کہ ترقی ٹھہر جاتی ہے اور پھر ایسا زمانہ ہوتا ہے کہ تنزل شروع ہو جاتا ہے۔
اس معاملہ میں ہم کو ملک چین کے حالات پر غور کرنے سے عبرت ہوتی ہے۔ چینی بہت لئیق آدمی ہیں بلکہ اگر بعض باتوں پر لحاظ کیا جاوے تو عقلمند بھی ہیں اور اس کا سبب یہ ہے کہ ان کی خوش قسمتی سے ابتدا ہی میں ان کی قوم میں بہت اچھی اچھی رسمیں قائم ہو گئیں۔ اور یہ کام ان لوگوں کا تھا جو اس قوم میں نہایت دانا اور بڑے حکیم تھے۔
چین کے لوگ اس بات میں مشہور و معروف ہیں کہ جو عمدہ سے عمدہ دانش اور عقل کی باتیں ان کو حاصل ہیں ان کو ہر شخص کی طبیعت پر بخوبی منقش کرنے کے واسطے اور اس بات کے لیے جن شخصوں کو وہ دانشمندی کی باتیں حاصل ہیں ان کو بڑے بڑے عہدے ملیں نہایت عمدہ طریقے ان میں رائج ہیں۔ اور وہ طریقے حقیقت میں بہت ہی عمدہ ہیں۔ بے شک جن لوگوں نے اپنا ایسا دستور قائم رکھا، انہوں نے انسان کی ترقی کے اسرار کو پا لیا اور اس لئے چاہیے تھا کہ وہ قوم تمام دنیا میں ہمیشہ افضل رہتی مگر بر خلاف اس کے ان کی حالت سکون پذیر ہو گئی ہے اور ہزاروں برس سے ساکن ہے اور اگر ان کی کبھی کچھ اور ترقی ہوگی تو بے شک غیر ملکوں کے لوگوں کی بدولت ہوگی۔ اس خرابی کا سبب یہی ہوا کہ اس تمام قوم کی حالت یکساں اور مشابہ ہو گئی اور سب کے خیالات اور طریق معاشرت ایک سے ہو گئے اور سب کے سب یکساں قواعد اور مسائل کی پابند ی میں پڑ گئے اور اس سبب سے وہ قوتیں جن سے انسان کو روز بروز ترقی ہوتی ہے ان میں سے معدوم ہو گئیں۔
پس جبکہ ہم مسلمان ہندوستان کے رہنے والے جن کی رسومات بھی عمدہ اصول و قواعد پر مبنی نہیں ہے بلکہ کوئی رسم اتفاقیہ اور کوئی رسم بلا خیال اور قوموں کے اختلا ط سے آ گئی ہے . جس میں ہزاروں نقص اور برائیاں ہیں، پھر ہم ان رسومو ں کے پابند اور نہ ان کی بھلائی برائی پر اور نہ خود کچھ اصلا ح اور درستی کی فکر میں ہوں بلکہ اندھا دھندی سے اسی کی پیروی کرتے چلے جاویں تو سمجھنا چاہیے کہ ہمارا حال کیا ہوگیا ہے اور آئندہ کیا ہونے والا ہے۔
ہماری نوبت چینیوں کے حال سے بھی رسومات کی پابندی کے سبب بد تر ہو گئی ہے اور اب ہم میں خود اتنی طاقت نہیں رہی کہ ہم اپنی ترقی کر سکیں۔ اس لیے بجز اس کے کہ دوسری قوم ہماری ترقی اور ہمارے قوائے عقلی کی تحریک کا باعث ہو اور کچھ چارہ نہیں۔ بعد اس کے کہ ہمارے قوائے عقلیہ تحریک میں آجاویں اور پھر قوت ایجاد ہم میں شگفتہ ہوتب ہم پھر اس قابل ہوں گے کہ اپنی ترقی کے لئے کچھ کر سکیں۔
مگر جب کہ ہم دوسری قوموں سے از راہ تعصب نفرت رکھیں اور کوئی نیا طریقہ زندگی کا کہ وہ کیسا ہی بے عیب ہو اختیار کرنا، صرف بسبب اپنے تعصب یا رواج کی پابندی کے معیوب سمجھیں تو پھر ہم کو اپنی بھلائی اور اپنی ترقی کی کیا توقع ہے۔ مگر چونکہ ہم مسلمان ہیں اور ایک مذہب رکھتے ہیں جس کو ہم دل سے سچ جانتے ہیں اس لیے ہم کو مذہبی پابندی ضرور ہے، اور وہ اسی قدر ہے کہ جو بات معاشرت اور تمدن اور زندگی بسر کرنے اور دنیاوی ترقی کی اختیار کرتے ہیں اس کی نسبت اتنا دیکھ لیں کہ وہ مباحات شرعیہ میں سے ہے یا محرمات شرعیہ سے، در صورت ثانی بلا شبہ ہم کو احتراز کرنا چاہیے اور در صورت اول بلا لحاظ پابندی رسوم کے اور بلا لحاظ اس بات کے کہ لوگ ہم کو برا کہتے ہیں یا بھلا، اس کو اختیار کرنا ضروری بلکہ واسطے ترقی قومی کے فرض ہے۔
خدا ہمہ مسلمانان را بریں کار توفیق دہد۔ آمین
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |