رس ان آنکھوں کا ہے کہنے کو ذرا سا پانی

رس ان آنکھوں کا ہے کہنے کو ذرا سا پانی
by آرزو لکھنوی

رس ان آنکھوں کا ہے کہنے کو ذرا سا پانی
سینکڑوں ڈوب گئے پھر بھی ہے اتنا پانی

آنکھ سے بہہ نہیں سکتا ہے بھرم کا پانی
پھوٹ بھی جائے گا چھالا تو نہ دے گا پانی

چاہ میں پاؤں کہاں آس کا میٹھا پانی
پیاس بھڑکی ہوئی ہے اور نہیں ملتا پانی

دل سے لوکا جو اٹھا آنکھ سے ٹپکا پانی
آگ سے آج نکلتے ہوئے دیکھا پانی

کس نے بھیگے ہوئے بالوں سے یہ جھٹکا پانی
جھوم کر آئی گھٹا ٹوٹ کے برسا پانی

پھیلتی دھوپ کا ہے روپ لڑکپن کا اٹھان
دوپہر ڈھلتے ہی اترے گا یہ چڑھتا پانی

ٹکٹکی باندھے وہ تکتے ہیں میں اس گھات میں ہوں
کہیں کھانے لگے چکر نہ یہ ٹھہرا پانی

کوئی متوالی گھٹا تھی کہ جوانی کی امنگ
جی بہا لے گیا برسات کا پہلا پانی

ہاتھ جل جائے گا چھالا نہ کلیجے کا چھوؤ
آگ مٹھی میں دبی ہے نہ سمجھنا پانی

رس ہی رس جن میں ہے پھر سیل ذرا سی بھی نہیں
مانگتا ہے کہیں ان آنکھوں کا مارا پانی

نہ ستا اس کو جو چپ رہ کے بھرے ٹھنڈی سانس
یہ ہوا کرتی ہے پتھر کا کلیجہ پانی

یہ پسینہ وہی آنسو ہیں جو پی جاتے تھے ہم
آرزوؔ لو وہ کھلا بھید وہ ٹوٹا پانی

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse