رشتۂ دم سے جان ہے تن میں

رشتۂ دم سے جان ہے تن میں
by عشق اورنگ آبادی

رشتۂ دم سے جان ہے تن میں
منکے منکے سے تیرے سمرن میں

دیدۂ دل سے دیکھتا ہوں تجھے
سوچتا ہوں جب اپنے میں من میں

گل ہے شبنم سے آہ دیدۂ تر
بن وہ گل رو کے صبح گلشن میں

کربلا کے بگولے سارے کاش
خاک اڑاتا ہوا پھروں بن میں

گوہر آب دار کے مانند
اشک غلطاں ہیں میرے دامن میں

سرو گل زار سا سہاتا ہے
وہ مرا یار گھر کے آنگن میں

اپنی صورت کو اے شہنشہ حسن
عشقؔ کے دیکھ دل کے درپن میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse