رشوت (1955)
by سعادت حسن منٹو
325219رشوت1955سعادت حسن منٹو

احمد دین کھاتے پیتے آدمی کا لڑکا تھا۔۔۔ اپنے ہم عمر لڑکوں میں سب سے زیادہ خوش پوش مانا جاتا تھا۔۔۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ بالکل خستہ حال ہو گیا۔

اس نے بی اے کیا اور اچھی پوزیشن حاصل کی۔۔۔ وہ بہت خوش تھا۔۔۔ اس کے والد خان بہادر عطاء اللہ کا ارادہ تھا کہ اسے اعلیٰ تعلیم کے لیے ولایت بھیجیں گے۔ پاسپورٹ لے لیا گیا تھا۔۔۔ سوٹ وغیرہ بھی بنوا لیے گئے تھے کہ اچانک خان بہادر عطاء اللہ نے جو بہت شریف آدمی تھے، کسی دوست کے کہنے پر سٹہ کھیلنا شروع کر دیا۔

شروع میں انہیں اس کھیل میں کافی منافع ہوا۔۔۔ وہ خوش تھے کہ چلو میرے بیٹے کی اعلیٰ تعلیم کا خرچ ہی نکل آیا۔۔۔ مگر لالچ بری بلا ہے۔ انہوں نے یہ سمجھا کہ ان کی پشت پر چوگنی ہے ۔۔۔جیتتے ہی چلے جائیں گے۔

ان کا وہ دوست جس نے ان کو اس راستے پر لگایا تھا بار بار ان سے کہتا تھا:

’’ خان صاحب۔۔۔ ماشاء اللہ آپ قسمت کے دھنی ہیں۔۔۔ مٹی میں بھی ہاتھ ڈالیں تو سونا بن جائے۔‘‘

اور وہ اس قسم کی چاپلوسیوں کے ذریعے خان بہادر سے سو دو سو روپے اینٹھ لیتا۔ خان بہادر کو بھی کوئی تکلیف محسوس نہ ہوتی، اس لیے کہ انہیں بغیر محنت کے ہزاروں روپے مل رہے تھے۔ احمد دین ذہین اور باشعور لڑکا تھا۔۔۔ اس نے ایک دن اپنے باپ سے کہا، ’’ابا جی! یہ آپ نے جو سٹہ بازی شروع کی ہے۔۔۔ معاف کیجیے گا، اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔۔۔‘‘

خان بہادر نے تیز لہجے میں اس سے کہا، ’’برخوردار ! تمہیں میرے کاموں میں دخل دینے کی جرأت نہیں ہونی چاہیے۔ میں جو کچھ کر رہا ہوں ٹھیک ہے۔۔۔ جتنا روپیہ آرہا ہے، وہ میں اپنے ساتھ قبر میں لے کر نہیں جاؤں گا۔ یہ سب تمہارے کام آئے گا۔۔۔‘‘

احمد دین نے بڑی معصومیت سے پوچھا، ’’لیکن ابا جی،یہ کب تک آتا رہے گا ۔۔۔ہوسکتا ہے کل کو یہ جانے بھی لگے۔۔۔‘‘

خان بہادر بھنا گئے۔

’’بکو مت۔۔۔ آتا ہی رہے گا۔‘‘

روپیہ آتا رہا۔۔۔لیکن ایک دن خان بہاد نے کئی ہزار روپے کی رقم داؤ پر لگا دی۔۔۔ لیکن نتیجہ صفر نکلا۔۔۔ دس ہزار ہاتھ سے دینے پڑے۔

تاؤ میں آ کر انہوں نے بیس ہزار روپے کا سٹہ کھیلا۔۔۔ ان کو یقین تھا کہ ساری کسر پوری ہو جائے گی۔۔۔ لیکن صبح جب انہوں نے اخبار دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ بیس ہزار بھی گئے۔ خان بہادر ہمت ہارنے والے نہیں تھے۔انہوں نے اپنا ایک مکان گروی رکھ کر پچاس ہزار روپے لیے اور سب کا سب اللہ کا نام لے کر چاندی کے سٹے پر لگا دیے۔

اللہ کانام تو خیر اللہ کا نام ہے۔۔۔ وہ چاندی اور سونے کی مارکیٹ پر کیا کنٹرول کرسکتا ہے۔۔۔ صبح ہوئی تو خان بہادر کو معلوم ہوا کہ چاندی کا بھاؤ ایک دم گر گیاہے۔۔۔ ان کو اس قدر صدمہ ہوا کہ دل کے دورے پڑنے لگے۔

احمد دین نے ان سے کہا، ’’ابا جی۔۔۔ چھوڑ دیجیے اس بکواس کو۔۔۔‘‘

خان بہادر نے بڑے غصے میں اپنے بیٹے سے کہا، ’’تم بکواس مت کرو۔۔۔میں جو کچھ کر رہا ہوں ٹھیک ہے۔‘‘

احمد دین نے مودبانہ کہا، ’’لیکن ابا جان۔۔۔ یہ جو آپ کو دل کی تکلیف شروع ہو گئی ہے،اس کی وجہ کیا ہے؟‘‘

’’مجھے کیا معلوم۔۔۔ اللہ بہتر جانتا ہے۔۔۔ ایسے عارضے انسان کو ہوتے ہی رہتے ہیں۔‘‘ احمد دین نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا،’’ جی ہاں ۔۔۔ انسان کو ہر قسم کے عارضے ہوتے رہتے ہیں لیکن ان کی کوئی وجہ بھی تو ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر اگر آپ کوئی ایسی چیز کھا لیں جس میں ہیضے کے جراثیم ہوں اور۔۔۔ ‘‘

خان بہادر کو اپنے بیٹے کی یہ گفتگو پسند نہیں تھی۔

’’ تم چلے جاؤ یہاں سے۔۔۔ میرا مغز مت چاٹو۔۔۔ میں ہر چیز سے واقف ہوں۔‘‘

احمد دین نے کمرے سے باہر نکلتے ہوئے کہا، ’’یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔۔۔ کوئی انسان بھی ہر چیز سے واقف ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔‘‘

احمد دین چلا گیا۔

خان بہادر اندرونی طور پر خود کو بہت بڑا چغد سمجھنے لگے تھے۔ لیکن وہ اپنے اس احساس کو اپنے لڑکے پر ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے۔

بستر پر لیٹے انہوں نے بار بار خود سے کہا، ’’خان بہادر عطاء اللہ۔۔۔ تم خان بہادر بنے پھرتے ہو۔۔۔ لیکن اصل میں تم اول درجے کے بیوقوف ہو۔‘‘

’’ تم اپنے بیٹے کی بات پر کان کیوں نہیں دھرتے۔۔۔ جبکہ تم جانتے ہو کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے صحیح ہے۔‘‘

’’ جتنا روپیہ تم نے حاصل کیا تھا، اس سے دگنا روپیہ تم ضائع کر چکے ہو۔۔۔ کیا یہ درست ہے؟‘‘

خان بہادر جھنجھلا گئے اور بڑ بڑانے لگے، ’’سب درست ہے۔۔۔ سب درست ہے۔۔۔ ایک میں ہی غلط ہوں لیکن میرا غلط ہونا ہی صحیح ہوگا۔۔۔ بعض اوقات غلطیاں بھی صحت کا سامان مہیا کر دیتی ہیں۔‘‘

پندرہ دن بستر پر لیٹے اور علاج کرانے کے بعد جب وہ کسی قدر ہی تندرست ہوئے تو انہوں نے اپنا ایک اور مکان بیچ دیا ۔۔۔ یہ پچیس ہزار روپے میں بکا ۔خان صاحب نے یہ سب روپے سٹے پر لگا دیے۔ ان کو پوری امید تھی کہ وہ اپنی اگلی پچھلی کسر پوری کر لیں گے مگر قسمت نے یاوری نہ کی اور وہ ان پچیس ہزار روپوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔احمد دین پیچ و تاب کھا کے رہ گیا، اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اپنے باپ کو کس طرح سمجھائے، وہ اس کی کوئی بات سنتے ہی نہیں تھے۔ احمد دین نے آخری کوشش کی اور ایک دن جب اس کا باپ اپنے کمرے میں حقہ پی رہا تھا اور معلوم نہیں کس سوچ میں غرق تھا کہ اس سے ڈرتے ڈرتے مخاطب ہوا:

’’ ابا جی۔۔۔!‘‘

خان بہادر صاحب سوچ میں اس قدر غرق تھے کہ انہوں نے اپنے لڑکے کی آواز ہی نہیں سنی۔احمد دین نے آواز کو ذرا بلند کیا:

’’ ابا جی۔۔۔ ابا جی! ‘‘

خان بہادر چونکے، ’’کیا ہے۔۔؟ ‘‘

احمد دین کانپ گیا۔۔۔

’’کچھ نہیں ابا جی۔۔۔ مجھے۔۔۔ مجھے آپ سے ایک بات کہنا تھی۔‘‘

خان بہادر نے حقے کی نڑی اپنے منہ سے جدا کی، ’’کہو ، کیا کہنا ہے۔۔۔‘‘

احمد دین نے بڑی لجاجت سے کہا، ’’مجھے یہ عرض کرنا ہے ۔۔۔ یہ درخواست کرنا تھی۔۔۔ کہ۔۔۔ آپ سٹہ کھیلنا بند کر دیں۔۔۔‘‘

حقے کا ایک زور دار کش لے کر وہ احمد دین پر برس پڑے، ’’تم کون ہوتے ہو مجھے نصیحت کرنے والے ۔۔۔میں جانوں میرا کام۔ کیا اب تک تمہارے ہی مشورے سے میں سارے کام کرتا رہا ہوں۔۔۔ دیکھو ،میں تم سے کہے دیتا ہوں کہ آئندہ میرے معاملے میں کبھی دخل نہ دینا۔۔۔ مجھے یہ گستاخی ہرگز پسند نہیں۔۔۔ سمجھے!‘‘

احمد دین کی گردن جھکی ہوئی تھی، ’’جی میں سمجھ گیا۔۔۔‘‘

اور یہ کہہ کر وہ اپنے باپ کے کمرے سے نکل گیا۔

سٹے کی لت شراب کی عادت سے بھی کہیں زیادہ بری ہوتی ہے۔ خان بہادر اس میں کچھ ایسے گرفتار ہوئے کہ جائیداد۔۔۔ سب کی سب اس خطرناک کھیل کی نذر ہوگئی۔ مرحوم بیوی کے زیور تھے۔۔۔ وہ بھی بک گئے۔۔۔ اور نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ ان کے دل کے عارضے نے کچھ ایسی شکل اختیار کی کہ وہ ایک روز صبح سویرے غسل خانے میں داخل ہوتے ہی دھم سے گرے اور ایک سیکنڈ کے اندر اندر دم توڑ دیا۔

احمد دین کو ظاہر ہے کہ اپنے باپ کی وفات کا بہت صدمہ ہوا۔۔۔ وہ کئی دن نڈھال رہا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کرے۔۔۔ بی اے پاس تھا،اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا۔۔۔ مگر اب سارا نقشہ ہی بدل گیا تھا۔ اس کے باپ نے ایک پھوٹی کوڑی بھی اس کےلیےنہیں چھوڑی تھی۔ مکان۔۔۔ جس میں وہ تنہا رہتا تھا۔۔۔ رہن تھا۔

یہاں سے اس کو کچھ عرصے کے بعد نکلنا پڑا۔ گھر کی مختلف چیزیں بیچ کر اس نے چار پانچ سو روپے حاصل کیے اور ایک غلیظ محلے میں ایک کمرہ کرائے پر لے لیا مگر پانچ سو روپے کب تک اس کا ساتھ دے سکتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ ایک برس تک بڑی کفایت شعاری سے گزارا کر لیتا۔ لیکن اس کے بعد کیا ہوتا۔

احمد دین نے سوچا، ’’مجھے ملازمت کر لینی چاہیے !چاہے وہ کیسی بھی ہو۔۔۔ پچاس ساٹھ روپے ماہوار مل جائیں۔۔۔ تو گزارا ہو جائے گا۔‘‘ اس کی ماں کو مرے اتنے ہی برس ہوگئے تھے جتنے اس کو جیتے، احمد دین نے حالانکہ اس کی شکل تک نہیں دیکھی تھی۔۔۔ نہ اس کو دودھ پینا نصیب ہوا تھا۔۔۔ پھر بھی وہ اکثر اس کو یاد کر کے آنسو بہاتا رہتا۔ احمد دین نے ملازمت حاصل کرنے کی انتہائی کوشش کی۔۔۔ مگر کامیابی نہ ہوئی۔۔۔ اتنے بے روزگار اور بے کار آدمی تھے کہ وہ خود کو اس بے روزگاری اور بے کاری کے سمندر میں ایک قطرہ سمجھتا تھا۔ لیکن اس احساس کے باوجود اس نے ہمت نہ ہاری۔۔۔ اور اپنی تگ و دو جاری رکھی۔

بہت دنوں کے بعد اسے معلوم ہوا کہ اگر کسی افسر کی مٹھی گرم کی جائے تو ملازمت ملنے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے لیکن وہ مٹھی گرم کرنے کا مسالا کہاں سے لاتا۔ ایک دفتر میں جب وہ ملازمت کے سلسلے میں گیا تو ہیڈ کلرک نے اس سے شفیقانہ انداز میں کہا:

’’دیکھو برخوردار! یوں خالی خولی کام نہیں چلے گا۔۔۔ جس اسامی کے لیے تم نے درخواست دی ہے، اس کے لیے پہلے ہی دو سو پچاس درخواستیں وصول ہو چکی ہیں۔۔۔ میں بڑا صاف گو آدمی ہوں۔۔۔ پانچ سو روپے اگر تم دے سکتے ہو تو یہ ملازمت تمہیں یقیناً مل جائے گی۔‘‘ اب احمد دین پانچ سو روپے کہاں سے لاتا، اس کے پاس بمشکل بیس یا تیس روپے تھے۔ چنانچہ اس نے ہیڈ کلرک سے کہا، ’’جناب! میرے پاس اتنے روپے نہیں۔۔۔ آپ ملازمت دلوا دیجیے، تنخواہ میں سے آدھی رقم آپ لے لیا کریں۔‘‘

ہیڈ کلرک ہنسا، ’’تم ہمیں بیوقوف بناتے ہو۔۔۔جاؤ، چلتے پھرتے بنو۔۔۔‘‘ احمد دین بہت دیر تک چلتا پھرتا رہا ۔۔۔مگر اسے اطمینان سے کہیں بیٹھنے کا موقع نہ ملا۔ جہاں جاتا، رشوت کا سوال سامنے ہوتا۔۔۔ دنیا شاید رشوت ہی کی وجہ سے عالم وجود میں آئی ہے۔ شاید خدا کو کسی نے رشوت دی ہو اور اس نے یہ دنیا بنا دی ہو۔احمد دین کے پاس جب پیسہ بھی نہ رہا تو مزدوری شروع کر دی۔ بوجھ اٹھاتا اور ہر روز دوروپے کما لیتا۔ مہنگائی کا زمانہ تھا، گو دونوں وقت کا کھانا بھٹیار خانے میں کھاتا لیکن اسے کافی خرچ برداشت کرنا پڑتا۔ زیادہ سے زیادہ ایک آنہ بچ رہتا۔

احمد دین مزدوری کرتا، مگر اس کے دل و دماغ پر رشوت کا چکر گھومتا رہتا تھا۔ یہ ایک بہت بڑی لعنت تھی اور وہ چاہتا تھا کہ اس سے کسی طرح نجات حاصل کرے۔۔۔ اور مزدوری چھوڑ کر کوئی ایسی ملازمت اختیار کرے جو اس کے شایانِ شان ہو۔ آخر وہ بی اے پاس تھا۔۔۔ فرسٹ کلاس۔ اس نے سوچا کہ نماز پڑھنا شروع کر دے، خدا سے دعا مانگے کہ وہ اس کی سنے۔ چنانچہ اس نے باقاعدہ پانچ وقت کی نماز شروع کر دی۔ یہ سلسلہ ایک وقت تک جاری رہا مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔اس دوران میں اس کے پاس تیس روپے جمع ہو چکے تھے۔ صبح کی نماز ادا کرنے کے بعد وہ ڈاک خانے گیا۔ تیس روپے کا پوسٹل آرڈر لیا اور لفافے میں ڈال کر ساتھ ہی ایک رقعہ بھی رکھ دیا جس کا مضمون کچھ اس قسم کا تھا:

’’اللہ میاں۔۔۔ میں سمجھتا ہوں تم بھی رشوت لے کر کام کرتے ہو۔ میرے پاس تیس روپے ہیں جو تمہیں بھیج رہا ہوں۔۔۔ مجھے کہیں اچھی سی ملازمت دلوا دو۔۔۔ بوجھ اٹھا اٹھا کر میری کمر دوہری ہوگئی ہے۔‘‘

لفافے پر اس نے پتہ لکھا:

’’بخدمت جناب اللہ میاں۔۔۔ مالکِ کائنات۔‘‘

چند روز بعد احمد دین کو ایک خط ملا جو ’’کائنات‘‘ اخبار کے ایڈیٹر کی طرف سے تھا۔ اس کا نام محمد میاں تھا، خط کے ذریعے اس نے احمد دین کو بلایا تھا۔ وہ ’’کائنات‘‘ کے دفتر گیا جہاں مترجم کی حیثیت سے سو روپیہ ماہوار پر رکھ لیا گیا۔

احمد دین نے سوچا۔۔۔ آخر رشوت کام آ ہی گئی۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.