رفتار عمر قطع رہ اضطراب ہے

رفتار عمر قطع رہ اضطراب ہے
by مرزا غالب

رفتارِ عمر قطعِ رہ اضطراب ہے
اس سال کے حساب کو برق آفتاب ہے

مینائے مے ہے سروِ نشاطِ بہار سے
بالِ تَدَر و جلوۂ موجِ شراب ہے

زخمی ہوا ہے پاشنہ پائے ثبات کا
نے بھاگنے کی گوں، نہ اقامت کی تاب ہے

جادادِ بادہ نوشیِ رنداں ہے شش جہت
غافل گماں کرے ہے کہ گیتی خراب ہے

نظّارہ کیا حریف ہو اس برقِ حسن کا
جوشِ بہار جلوے کو جس کے نقاب ہے

میں نامراد دل کی تسلّی کو کیا کروں
مانا کہ تیری رخ سے نگہ کامیاب ہے

گزرا اسدؔ مسرّتِ پیغامِ یار سے
قاصد پہ مجھ کو رشکِ سوال و جواب ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse