رنج اور رنج بھی تنہائی کا
رنج اور رنج بھی تنہائی کا
وقت پہنچا مری رسوائی کا
عمر شاید نہ کرے آج وفا
کاٹنا ہے شب تنہائی کا
تم نے کیوں وصل میں پہلو بدلا
کس کو دعویٰ ہے شکیبائی کا
ایک دن راہ پہ جا پہنچے ہم
شوق تھا بادیہ پیمائی کا
اس سے نادان ہی بن کر ملئے
کچھ اجارہ نہیں دانائی کا
سات پردوں میں نہیں ٹھہرتی آنکھ
حوصلہ کیا ہے تماشائی کا
درمیاں پائے نظر ہے جب تک
ہم کو دعویٰ نہیں بینائی کا
کچھ تو ہے قدر تماشائی کی
ہے جو یہ شوق خود آرائی کا
اس کو چھوڑا تو ہے لیکن اے دل
مجھ کو ڈر ہے تری خود رائی کا
بزم دشمن میں نہ جی سے اترا
پوچھنا کیا تری زیبائی کا
یہی انجام تھا اے فصل خزاں
گل و بلبل کی شناسائی کا
مدد اے جذبۂ توفیق کہ یاں
ہو چکا کام توانائی کا
محتسب عذر بہت ہیں لیکن
اذن ہم کو نہیں گویائی کا
ہوں گے حالیؔ سے بہت آوارہ
گھر ابھی دور ہے رسوائی کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |