رنج راحت اثر نہ ہو جائے
رنج راحت اثر نہ ہو جائے
درد کا دل میں گھر نہ ہو جائے
منہ چھپانا پڑے نہ دشمن سے
اے شب غم سحر نہ ہو جائے
کفر منظور ہے مجھے دل سے
وہ مسلمان اگر نہ ہو جائے
ہاتھ الجھا رہے گریباں میں
چاک دامن ادھر نہ ہو جائے
ہے ظہیرؔ ایک مرد سنجیدہ
ہاں جو آشفتہ سر نہ ہو جائے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |