رنج میں بھی شاد رہنا چاہئے
رنج میں بھی شاد رہنا چاہئے
یہ مقولہ یاد رہنا چاہئے
ہجر میں ناشاد رہنا چاہئے
خستہ و برباد رہنا چاہئے
سن ہی لیں گے وہ کبھی فریاد غم
برسر فریاد رہنا چاہئے
خود بخود ہو جائیں گے وہ مہرباں
طالب بیداد رہنا چاہئے
کس لئے پھنستا ہے اے دل زلف میں
قید سے آزاد رہنا چاہئے
خواہ سر پر آسماں بھی آ پڑے
آدمی کو شاد رہنا چاہئے
چھوٹ کر ہم نے قفس سے یہ کہا
کچھ ستم صیاد رہنا چاہئے
چھوڑ کر دل آپ جاتے ہیں کہاں
یہ مکاں آباد رہنا چاہئے
وعدہ تو ہم سے کئے جاتے ہو تم
شرط یہ ہے یاد رہنا چاہئے
رحم آ ہی جائے گا ہاجرؔ انہیں
عشق میں برباد رہنا چاہئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |