رنج کی جب گفتگو ہونے لگی
رنج کی جب گفتگو ہونے لگی
آپ سے تم تم سے تو ہونے لگی
چاہیئے پیغام بر دونوں طرف
لطف کیا جب دوبدو ہونے لگی
میری رسوائی کی نوبت آ گئی
ان کی شہرت کو بہ کو ہونے لگی
ہے تری تصویر کتنی بے حجاب
ہر کسی کے رو بہ رو ہونے لگی
غیر کے ہوتے بھلا اے شام وصل
کیوں ہمارے رو بہ رو ہونے لگی
ناامیدی بڑھ گئی ہے اس قدر
آرزو کی آرزو ہونے لگی
اب کے مل کر دیکھیے کیا رنگ ہو
پھر ہماری جستجو ہونے لگی
داغؔ اترائے ہوئے پھرتے ہیں آج
شاید ان کی آبرو ہونے لگی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |