رنگ جمنے نہ دیا بات کو چلنے نہ دیا
رنگ جمنے نہ دیا بات کو چلنے نہ دیا
کوئی پہلو مرے مطلب کا نکلنے نہ دیا
کچھ سہارا بھی ہمیں روز ازل نے نہ دیا
دل بدلنے نہ دیا بخت بدلنے نہ دیا
کوئی ارماں ترے جلووں نے نکلنے نہ دیا
ہوش آنے نہ دیا غش سے سنبھلنے نہ دیا
چاہتے تھے کہ پیامی کو پتا دیں تیرا
رشک نے نام ترا منہ سے نکلنے نہ دیا
شمع رو میں نے کہا تھا مری ضد سے اس نے
شمع کو بزم میں اپنے کبھی جلنے نہ دیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |