رنگ جن کے مٹ گئے ہیں ان میں یار آنے کو ہے
رنگ جن کے مٹ گئے ہیں ان میں یار آنے کو ہے
دھوم ہے پژمردہ پھولوں میں بہار آنے کو ہے
یار کوچے میں ترے دھونی رمانے کے لیے
غمزدہ حسرت زدہ اک خاکسار آنے کو ہے
رحم کرنا اب کی میری آنکھ کھلنے کی نہیں
آخری غش مجھ کو اے پروردگار آنے کو ہے
کوئی دم میں حشر ہوگا کچھ خبر بھی ہے تمہیں
بے قراری لاتی ہے اک بے قرار آنے کو ہے
بھاگے جاتے ہیں بگولے کانپتا ہے نجد قیس
خاک اڑی کس کی یہاں کس کا غبار آنے کو ہے
ہوش اڑے جاتے ہیں یارو روح ہے سہمی ہوئی
صید گاہ عشق سے کس کا شکار آنے کو ہے
جان جاں تو کیجو جاں بخشی کہ تجھ کو دیکھنے
ایک بے کس بے خود و بے اختیار آنے کو ہے
درد تنہائی سے چھڑاتا ہے عالم نزع کا
بے قراری کوچ کرتی ہے قرار آنے کو ہے
گل رخوں کی بزم میں جانے کو ہے میرا غبار
پیشوائی کے لئے ابر بہار آنے کو ہے
اب مری آنکھوں کو ہوگا ولولہ دیدار کا
حسرت ان میں آ چکی ہے انتظار آنے کو ہے
ہوگی اب آراستہ تربت شہید ناز کی
چادر گل بچھتی ہے شمع مزار آنے کو ہے
بے وفا تم با وفا میں دیکھیے ہوتا ہے کیا
غیظ میں آنے کو تم ہو مجھ کو پیار آنے کو ہے
غنچہ و گل کر رہی ہیں کیوں گریباں چاک چاک
کون سے رشک چمن کا دل فگار آنے کو ہے
ہجر میں دم گھٹنے کو ہے کوچ ہے تفریح کا
سانس رکنے کو ہے ہچکی چند بار آنے کو ہے
بیٹھی ہے لیلیٰ گریباں پھاڑنے کے واسطے
کس کے مجنوں کا لباس تار تار آنے کو ہے
غش سے چونکو آنکھ کھولو دم نہ توڑو اے شرفؔ
شکر کا سجدہ کرو اٹھ بیٹھو یار آنے کو ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |