رنگ پر کل تھا ابھی لالۂ گلشن کیسا

رنگ پر کل تھا ابھی لالۂ گلشن کیسا
by ریاض خیرآبادی

رنگ پر کل تھا ابھی لالۂ گلشن کیسا
بے چراغ آج ہے ہر ایک نشیمن کیسا

دل پر داغ جو ہوتا ہے لحد میں بیتاب
جھلملاتا ہے چراغ سر مدفن کیسا

میں کہیں کا نہ رہا باد خزاں کے چلتے
اڑ گیا میرے مقدر سے نشیمن کیسا

اب خدا جانے بہار آتی ہے اس میں کہ نہیں
میرے دم سے کبھی آباد تھا گلشن کیسا

چھپ کے راتوں کو کہیں آپ نہ آئے نہ گئے
بے سبب نام ہوا آپ کا روشن کیسا

مال ہاتھوں نے لیا ہونٹھوں نے افشاں چن لی
آ کے قابو میں لٹا آپ کا جوبن کیسا

ہم نے دیکھے ہیں مقامات تجلی ان کے
طور کہتے ہیں کسے وادیٔ ایمن کیسا

ہے ابھی میرے بڑھاپے میں جوانی کیسی
ہے ابھی ان کی جوانی میں لڑکپن کیسا

ذبح کے وقت بہت صاف رہا تھا یہ تو
دے اٹھا خون دم حشر یہ دامن کیسا

تو دھری جائے گی اس گھر سے جو نکلی کوئی بات
نگہ شوق یہ دیوار میں روزن کیسا

میری سج دھج تو کوئی عشق بتاں میں دیکھے
ساتھ قشقہ کے ہے زنار برہمن کیسا

آئے ہیں داغ نیا دینے وہ مجھ کو پس مرگ
آج پھیلا ہے اجالا سر مدفن کیسا

مسی مالیدہ لب یار کی سن کر تعریف
منہ پھلائے ہوئے ہے غنچۂ سوسن کیسا

باغباں کام ہمیں کیا ہے وہ اجڑے کہ رہے
جب ہمیں باغ سے نکلے تو نشیمن کیسا

پارسا بن کے ریاضؔ آئے ہیں میخانے میں
آپ بیٹھے ہیں بچائے ہوئے دامن کیسا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse