رواں دواں نہیں یاں اشک چشم تر کی طرح

رواں دواں نہیں یاں اشک چشم تر کی طرح
by امانت لکھنوی

رواں دواں نہیں یاں اشک چشم تر کی طرح
گرہ میں رکھتے ہیں ہم آبرو گہر کی طرح

سنی صفت کسی خوش چشم کی جو مردم سے
خیال دوڑ گیا آنکھ پر نظر کی طرح

چھپی نہ خلق خدا سے حقیقت خط شوق
اڑا جہاں میں کبوتر مرا خبر کی طرح

سوائے یار نہ دیکھا کچھ اور عالم میں
سما گیا وہ مری آنکھ میں نظر کی طرح

عدم کی راہ میں کھٹکا رہا جہنم کا
سفر نے دل کو جلایا مرے سقر کی طرح

کھلے جو سب تو بندھا تار میٹھی باتوں کا
شکر گرہ میں وہ رکھتے ہیں نیشکر کی طرح

وہ عندلیب ہوں شہپر جو میرا مل جائے
چڑھائیں سر پہ سلاطیں ہما کے پر کی طرح

زکوٰۃ دے زر گل کی بہار میں گلچیں
چمن میں پھول لٹا اشرفی کے زر کی طرح

گری ہے چھٹ کے جو زانو پہ شام کو افشاں
ستارے یار کے دامن میں ہیں سحر کی طرح

مشاعرے کا امانتؔ ہے کس کو ہجر میں ہوش
کہاں کے شعر کہاں کی غزل کدھر کی طرح

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse