روزِ غم میں کیا قیامت ہے شبِ عشرت کی یاد

روزِ غم میں کیا قیامت ہے شبِ عشرت کی یاد
by مصطفٰی خان شیفتہ
297484روزِ غم میں کیا قیامت ہے شبِ عشرت کی یادمصطفٰی خان شیفتہ

روزِ غم میں کیا قیامت ہے شبِ عشرت کی یاد
اشکِ خوں سے آ گئیں رنگینیاں صحبت کی یاد

میری حالت دیکھ لو تغئیر کتنی ہو چکی
وصل کے دن دم بہ دم کیوں شیشۂ ساعت کی یاد

میں ہوں بے کس اور بے کس پر ترحم ہے ضرور
حسنِ روز افزوں دلا دینا مری حالت کی یاد

طاقتِ جنبش نہیں اس حال پہ قصدِ عدم
مر گئے پر بھی رہے گی اپنی اس ہمت کی یاد

غالباً ایامِ حرماں بے خودی میں کٹ گئے
آتی ہے پھر آرزو بھولی ہوئی مدت کی یاد

دل لگانے کا ارادہ پھر ہے شائد شیفتہ
ایسی حسرت سے جو ہے گزری ہوئی الفت کی یاد


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.