روندی ہوئی ہے کوکبۂ شہریار کی
روندی ہوئی ہے کوکبہ شہریار کی
اترائے کیوں نہ خاک سرِ رہگزار کی
جب اس کے دیکھنے کے لیے آئیں بادشاہ
لوگوں میں کیوں نمود نہ ہو لالہ زار کی
بُھوکے نہیں ہیں سیرِ گلستان کے ہم ولے
کیوں کر نہ کھائیے کہ ہوا ہے بہار کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |