رونقیں آبادیاں کیا کیا چمن کی یاد ہیں
رونقیں آبادیاں کیا کیا چمن کی یاد ہیں
بوئے گل کی طرح ہم گلشن کے خانہ زاد ہیں
جلوہ فرمائی کا مژدہ کس نے بھیجا ہے کہ آج
دیدہ و دل ہم دگر صرف مبارک باد ہیں
کس کی مژگاں نے ہمارے ساتھ کاوش کی شروع
خون کے قطرہ رگوں میں نشتر فصاد ہیں
یاں رضا محبوب کی منظور خاطر ہے فقط
وصل ہو یا ہجر ہو ہر امر میں ہم شاد ہیں
کر چکا عیشیؔ طواف خانۂ کعبہ کا قصد
جب تلک ہندوستاں کا مے کدہ آباد ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |