رونے میں ابر تر کی طرح چشم کو میرے جوش ہے

رونے میں ابر تر کی طرح چشم کو میرے جوش ہے
by عشق اورنگ آبادی

رونے میں ابر تر کی طرح چشم کو میرے جوش ہے
نالہ میں آہ رعد سا شور ہے اور خروش ہے

رعد نے شور سے پکار مستوں کو یہ نوید دی
تم ہو کدھر اے مے کشو موسم ناے و نوش ہے

چاک کروں ہوں جیب صبر طالع عندلیب دیکھ
سننے کو اس کا درد دل گل ہی بہ شکل گوش ہے

کن نے چمن میں مے کشی کی ہے صبا تو سچ کہو
جام ہے گل کے ہاتھ میں غنچہ سبو بہ دوش ہے

کون دوانہ مر گیا اس کے عزا میں اب تلک
اس کے لباس سر بہ سر چشم سیاہ پوش ہے

نالہ ہے خانہ زاد عشق لیک کہاں سر و دماغ
اپنے تو قافلے کے بیچ جو ہے جرس خموش ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse