روٹھے ہوئے کہ اپنے ذرا اب منائے زلف

روٹھے ہوئے کہ اپنے ذرا اب منائے زلف
by ریاض خیرآبادی

روٹھے ہوئے کہ اپنے ذرا اب منائے زلف
پیارا ہے دل تو ناز بھی دل کے اٹھائے زلف

در گزرے دل کی یاد سے ہم جان تو بچی
پیچھے پڑی ہے جان کے اب کیوں بلائے زلف

وہ کیوں بتائے ہم کو دل گم شدہ کا حال
پوچھیں جناب خضر تو رستہ بتائے زلف

بکھرائے بال دیکھ لیا کس کو بام پر
ہر وقت ہائے زلف ہے ہر لحظہ ہائے زلف

کس طرح ان حسینوں کے بھرتی رہی ہے کان
پہنچے نہ تیرے کان میں اے دل صداۓ زلف

بل کھا کے دوش ناز سے گرنا ادھر ادھر
وہ زلف اور ہائے وہ کافر ادائے زلف

لے کر بلائیں خود وہ کشاکش میں پڑ گیا
دل زلف کو ستائے نہ دل کو ستائے زلف

پھندے میں اس کے طائر دل آ رہے گا آپ
مرغ نظر کو دام میں پہلے پھنسائے زلف

پینگائے اور یہ جوبنوں کا رہنمائے دل
صد سالہ زاہدوں کو تو برسوں جھلائے زلف

آشفتگان زلف کا برہم ہے کیوں مزاج
کہتا ہے کون کوئی نہ ہو مبتلائے زلف

سائے سے اس کے بھاگتے ہیں لوگ دور دور
بگڑی ہوئی ہے آج کل ایسی ہوائے زلف

تم نام ان کی زلف کو رکھتے ہو کیوں ریاضؔ
سن لے تو ایک ایک کی سو سو سنائے زلف

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse