316062روٹیاںنظیر اکبر آبادی

جب آدمی کے پیٹ میں آتی ہیں روٹیاں
پھولی نہیں بدن میں سماتی ہیں روٹیاں
آنکھیں پری رخوں سے لڑاتی ہیں روٹیاں
سینے اپر بھی ہاتھ چلاتی ہیں روٹیاں
جتنے مزے ہیں سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں
روٹی سے جس کا ناک تلک پیٹ ہے بھرا
کرتا پرے ہے کیا وہ اچھل کود جا بہ جا
دیوار پھاند کر کوئی کوٹھا اچھل گیا
ٹھٹھا ہنسی شراب صنم ساقی اس سوا
سو سو طرح کی دھوم مچاتی ہیں روٹیاں
جس جا پہ ہانڈی چولہا توا اور تنور ہے
خالق کی قدرتوں کا اسی جا ظہور ہے
چولھے کے آگے آنچ جو چلتی حضور ہے
جتنے ہیں نور سب میں یہی خاص نور ہے
اس نور کے سبب نظر آتی ہیں روٹیاں
آوے توے تنور کا جس جا زباں پہ نام
یا چکی چولھے کے جہاں گل زار ہوں تمام
واں سر جھکا کے کیجے ڈنڈوت اور سلام
اس واسطے کہ خاص یہ روٹی کے ہیں مقام
پہلے انہیں مکانوں میں آتی ہیں روٹیاں
ان روٹیوں کے نور سے سب دل ہیں بور بور
آٹا نہیں ہے چھلنی سے چھن چھن گرے ہے نور
پیڑا ہر ایک اس کا ہے برفی و موتی چور
ہرگز کسی طرح نہ بجھے پیٹ کا تنور
اس آگ کو مگر یہ بجھاتی ہیں روٹیاں
پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے
یہ مہر و ماہ حق نے بنائے ہیں کاہے کے
وہ سن کے بولا بابا خدا تجھ کو خیر دے
ہم تو نہ چاند سمجھیں نہ سورج ہیں جانتے
بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں
پھر پوچھا اس نے کہیے یہ ہے دل کا طور کیا
اس کے مشاہدے میں ہے کھلتا ظہور کیا
وہ بولا سن کے تیرا گیا ہے شعور کیا
کشف القلوب اور یہ کشف القبور کیا
جتنے ہیں کشف سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں
روٹی جب آئی پیٹ میں سو قند گھل گئے
گلزار پھولے آنکھوں میں اور عیش تل گئے
دو تر نوالے پیٹ میں جب آ کے ڈھل گئے
چودہ طبق کے جتنے تھے سب بھید کھل گئے
یہ کشف یہ کمال دکھاتی ہیں روٹیاں
روٹی نہ پیٹ میں ہو تو پھر کچھ جتن نہ ہو
میلے کی سیر خواہش باغ و چمن نہ ہو
بھوکے غریب دل کی خدا سے لگن نہ ہو
سچ ہے کہا کسی نے کہ بھوکے بھجن نہ ہو
اللہ کی بھی یاد دلاتی ہیں روٹیاں
اب آگے جس کے مال پوے بھر کے تھال ہیں
پورے بھگت انہیں کہو صاحب کے لال ہیں
اور جن کے آگے روغنی اور شیرمال ہیں
عارف وہی ہیں اور وہی صاحب کمال ہیں
پکی پکائی اب جنہیں آتی ہیں روٹیاں
کپڑے کسی کے لال ہیں روٹی کے واسطے
لمبے کسی کے بال ہیں روٹی کے واسطے
باندھے کوئی رومال ہیں روٹی کے واسطے
سب کشف اور کمال ہیں روٹی کے واسطے
جتنے ہیں روپ سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں
روٹی سے ناچے پیادہ قواعد دکھا دکھا
اسوار ناچے گھوڑے کو کاوہ لگا لگا
گھنگھرو کو باندھے پیک بھی پھرتا ہے ناچتا
اور اس سوا جو غور سے دیکھا تو جا بہ جا
سو سو طرح کے ناچ دکھاتی ہیں روٹیاں
روٹی کے ناچ تو ہیں سبھی خلق میں پڑے
کچھ بھانڈ بھیگتے یہ نہیں پھرتے ناچتے
یہ رنڈیاں جو ناچے ہیں گھونگھٹ کو منہ پہ لے
گھونگھٹ نہ جانو دوستو تم زینہار اسے
اس پردے میں یہ اپنے کماتی ہیں روٹیاں
اشرافوں نے جو اپنی یہ ذاتیں چھپائی ہیں
سچ پوچھئے تو اپنی یہ شانیں بڑھائی ہیں
کہئے انہوں کی روٹیاں کس کس نے کھائی ہیں
اشراف سب میں کہئے تو اب نان بائی ہیں
جن کی دکاں سے ہر کہیں جاتی ہیں روٹیاں
دنیا میں اب بدی نہ کہیں اور نکوئی ہے
یا دشمنی و دوستی یا تند خوئی ہے
کوئی کسی کا اور کسی کا نہ کوئی ہے
سب کوئی ہے اسی کا کہ جس ہاتھ ڈوئی ہے
نوکر نفر غلام بناتی ہیں روٹیاں
روٹی کا اب ازل سے ہمارا تو ہے خمیر
روکھی ہی روٹی حق میں ہمارے ہے شہد و شیر
یا پتلی ہووے موٹی خمیری ہو یا فطیر
گیہوں جوار باجرے کی جیسی ہو نظیرؔ
ہم کو تو سب طرح کی خوش آتی ہیں روٹیاں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.