رکھتا ہوں طلائی رنگ اور اشک بھی موتی ہے

رکھتا ہوں طلائی رنگ اور اشک بھی موتی ہے
by عشق اورنگ آبادی

رکھتا ہوں طلائی رنگ اور اشک بھی موتی ہے
منعم کے بھی گھر آخر دولت یہی ہوتی ہے

سنبل کی پریشانی کب کم تھی کہ پھر تس پر
شبنم جو سرشک اس کے مژگاں میں پروتی ہے

عالی سے میں جا پوچھا کیا واقعہ یاں گزرا
گل چاک گریباں ہے شبنم ہے کہ روتی ہے

دم سرد ہی وہ بھر کر یہ مجھ سے لگا کہنے
ہر صبح گلستاں کی حالت یہی ہوتی ہے

عشقؔ اپنی فنا کا خوف سرکش کے نہیں دل میں
کب شمع یہ ہے روشن جو صبح بھی ہوتی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse