رکھی ہرگز نہ ترے رخ نے رخ بدر کی قدر
رکھی ہرگز نہ ترے رخ نے رخ بدر کی قدر
کھوئی کاکل نے بھی آخر کو شب قدر کی قدر
عزت و قدر کی اس گل سے توقع ہے عبث
واں نہ عزت کی کچھ عزت ہے نہ کچھ قدر کی قدر
راستی خوار ہے اس چشم فسوں پرور سے
ہاں مگر منزلت مکر ہے اور غدر کی قدر
مے پرستوں میں ہے یوں ساغر و مینا کا وقار
جیسے اسلام میں ہو محتسب و صدر کی قدر
کفش برداری سے اس مہر کی چمکا ہے نظیرؔ
ورنہ کیا خاک تھی اس ذرۂ بے قدر کی قدر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |