رکھے کوئی اس طرح کے لالچی کو کب تلک بہلا
رکھے کوئی اس طرح کے لالچی کو کب تلک بہلا
چلی جاتی ہے فرمائش کبھی یہ لا کبھی وہ لا
مجھے ان کہنہ افلاکوں میں رہنا خوش نہیں آتا
بنایا اپنے دل کا ہم نیں اور ہی ایک نو محلا
رہی ہے سر نوا سنمکھ گئی ہے بھول منصوبہ
تری انکھیوں نیں شاید مات کی ہے نرگس شہلا
کیا تھا غیر نیں ہم رنگ ہو کر وصل کا سودا
تمہارا دیکھ مکھ کا آفتاب اس کا تو دل دہلا
کف پا یار کا ہے پھول کی پنکھڑی سے نازک تر
مرا دل نرم تر ہے اس کے ہوتے اس سے مت سہلا
جوابوں میں غزل کے آبروؔ کیوں کہل کرتا ہے
تو اک ادنیٰ توجہ بیچ کہہ لیتا ہے مت کہلا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |