رہتا ہے کب اک روش پر آسماں
رہتا ہے کب اک روش پر آسماں
کھاتا ہے چکر پہ چکر آسماں
کر دیا برباد اک دم میں مجھے
کیا کیا تو نے ستم گر آسماں
آہ کرتے ہیں ہزاروں دل فگار
پر نہ ٹوٹا تیرا خنجر آسماں
روند ڈالوں پاؤں کے نیچے تجھے
دل میں آتا ہے جفا گر آسماں
رات کو برساتا ہے پتھر اگر
دن کو برساتا ہے اخگر آسماں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |