رہتا ہے ہمیشہ جو مری یار بغل میں
رہتا ہے ہمیشہ جو مری یار بغل میں
جلتے ہیں اسے دیکھ کے اغیار بغل میں
کیا لطف ہو گر عیش کے سامان بہم ہوں
معشوق بھی ہو شوخ طرحدار بغل میں
ہر وقت جو آغوش میں رہتا تھا ہماری
اب اوس کو لیے پھرتے ہیں اغیار بغل میں
کس طرح میں سمجھوں کہ وہ کرتے ہیں محبت
آتے نہیں بھولے سے بھی اک بار بغل میں
مے نوشی کا جب حظ ہے کہ ہو بر لب دریا
ساغر ہو اگر ہاتھ میں تو یار بغل میں
سب مٹ گئی ہاجرؔ شب فرقت کی مصیبت
خوب اس کو دبا کر جو کیا پیار بغل میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |