رہنے دے شب اپنے پاس مجھ کو
رہنے دے شب اپنے پاس مجھ کو
اوروں سا نہ کر قیاس مجھ کو
رہ جا کہ کہوں گا حال دل کا
آ جائیں تنک حواس مجھ کو
دل نازک و کار عشق در پیش
اپنا ہے نپٹ ہراس مجھ کو
یارب گیا کون یاں سے مہماں
لگتا ہے یہ گھر اداس مجھ کو
محرم سے تو سنیو حال میرا
نئیں طاقت التماس مجھ کو
حیرت نے کیا ہے یک جہاں کا
جوں آئینہ روشناس مجھ کو
کو جامۂ خاک و خوں کہ قائمؔ
سجتا تھا وہی لباس مجھ کو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |