رہنے دے یہ طنز کے نشتر اہل جنوں بے باک نہیں
رہنے دے یہ طنز کے نشتر اہل جنوں بے باک نہیں
کون ہے اپنے ہوش میں ظالم کس کا گریباں چاک نہیں
جب تھا زمانہ دیوانوں کا اب فرزانے آئے ہیں
جب صحرا میں لالہ و گل تھے اب گلشن میں خاک نہیں
فتنوں کی ارزانی سے اب ایک اک تار آلودہ ہے
ہم دیکھیں کس کس کے دامن ایک بھی دامن پاک نہیں
موج تلاطم خیر ہیں ہم ساحل کے قریب آتے ہی نہیں
وقت کی رو میں بہہ جائیں ہم ایسے خس و خاشاک نہیں
درد و کرب سے حشر بپا ہونٹوں پہ تبسم ہے اخترؔ
دل کا عالم کچھ بھی رہے آنکھیں تو مگر نمناک نہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |