رہی ان کی چین جبیں دیر تک
رہی ان کی چین جبیں دیر تک
چڑھایا کئے آستیں دیر تک
اڑاتی رہی خاکساروں کی خاک
تمہاری گلی کی زمیں دیر تک
کسی کے جو آنے کی امید تھی
رہی لب پہ جان حزیں دیر تک
رہی دیکھ کر نقشۂ کوئے یار
تحیر میں خلد بریں دیر تک
وہ نیرنگیاں میرے رونے میں تھیں
کہ ہنستے رہے سب حسیں دیر تک
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |