زبان بند رہی دل کا مدعا نہ کہا

زبان بند رہی دل کا مدعا نہ کہا
by اختر انصاری اکبرآبادی
318954زبان بند رہی دل کا مدعا نہ کہااختر انصاری اکبرآبادی

زبان بند رہی دل کا مدعا نہ کہا
مگر نگاہ نے اس انجمن میں کیا نہ کہا

محیط شوق میں ہم ڈوبتے ابھرتے رہے
خدا گواہ کبھی جور نا خدا نہ کہا

صنم کدہ ہے کہ اک محفل خدا ونداں
بہت خفا ہوا وہ بت جسے خدا نہ کہا

ہزار خضر نما لوگ راستوں میں ملے
ہمارے دل نے کسی کو بھی رہنما نہ کہا

یہ کائنات تو ہے خیر مجھ سے بیگانہ
اگر نگاہ نے تیری بھی آشنا نہ کہا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.