زبان بند رہی دل کا مدعا نہ کہا
زبان بند رہی دل کا مدعا نہ کہا
مگر نگاہ نے اس انجمن میں کیا نہ کہا
محیط شوق میں ہم ڈوبتے ابھرتے رہے
خدا گواہ کبھی جور نا خدا نہ کہا
صنم کدہ ہے کہ اک محفل خدا ونداں
بہت خفا ہوا وہ بت جسے خدا نہ کہا
ہزار خضر نما لوگ راستوں میں ملے
ہمارے دل نے کسی کو بھی رہنما نہ کہا
یہ کائنات تو ہے خیر مجھ سے بیگانہ
اگر نگاہ نے تیری بھی آشنا نہ کہا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |