زبان دانی

319511زبان دانیناصر نذیر فراق دہلوی

نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے

ایس ڈبلیو فیلن صاحب انسپکٹر مدارس حلقہ بہار کو اردو زبان دانی کا بڑا شوق تھا۔ اسی وجہ سے انہوں نے گورنمنٹ کو توجہ دلائی تھی کہ اردو زبان کی ایک ڈکشنری ایسی مرتب کرائی جائے جو یوروپین لوگوں کے لئے ہادی اور چراغ ہدایت ہو۔ اور فیلن صاحب ہی اس کام کے لئے منتخب کئے گئے تھے اور اردو لغت کی تالیف کے وقت انہوں نے اپنی مدد کے لئے منشی سید احمد صاحب فرہنگ آصفیہ، منشی چرنجی لال صاحب مؤلف مخزن المحاورات اور منشی فیاض الدین صاحب کو لیا تھا۔ منشی فیاض الدین مرزا الہٰی بخش صاحب باشاہ زادہ گور گانی کی سرکار میں ناخن بندی رکھتے تھے اور لال قلعہ کی آخری بہار، بہادر شاہ کے دربار انہو ں نے خوب دیکھے تھے۔ اور بزم آخر منشی صاحب نے اسی باعث سے عجیب و غریب خوب لکھی ہے کہ لال قلعہ اور بادشاہ کو انہوں نے سالہا سال دیکھا تھا۔

فیلن صاحب کا قاعدہ تھا کہ وہ پٹنہ عظیم آباد سے دلّی آتے تھے۔ ان کے یہ لائق فائق حواری یا مددگار قلم دوات، کاغذ پنسل لے کر ان کے ساتھ ہوتے تھے اور دلی کے گلی کوچوں میں ڈانواں ڈول پھرا کرتے تھے۔ فقط محاوروں کی چاہ میں کبھی زردوزوں کے، کبھی دبکیّوں کے، کبھی کند لاکشوں وغیرہ پیشہ وروں کے کارخانوں میں گھس جاتے۔ جو جو اوزار یا سامان اس کارخانے میں پاتے تھے ان کے ناموں کی پوچھ گچھ کرتے تھے۔ ان کے کاموں کی اصطلاحوں کی چھان بین کرتے تھے اور مددگار کوئی ناگری میں، کوئی انگریزی میں، کوئی اردو میں ان الفاظ، ان محاورات، ان اصطلاحوں کو لکھتے جاتے تھے۔

فیلن صاحب کو میرزا رجب علی صاحب سرور کا فسانہ عجائب پڑھتے پڑھتے حفظ ہو گیا۔ میرامّن دہلوی کا چار درویش بھی نوک زبان تھا۔ کبھی چاندنی چوک میں جو تہ والوں سے بحث ہورہی ہے، کہ پھکلائی اور کسوں کے کیا معنی ہیں۔ ٹاٹ بافی کی وجہ تسمیہ کیا ہے۔ کبھی نان بائی کی دکان پر نہاری اور خمیری کے خمیر اور مصالحہ کی تحقیق کر رہے ہیں۔ کبھی فتحپوری کے میوہ فروشوں اور کنجڑوں سے بات کر کے اپنا دل ہرا کر رہے ہیں۔ غرض یہ کہ چومیرد مبتلا میرد، چوخیزد مبتلا خیزد۔ صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک وہ اور ان کے اسسٹنٹ اردو بول چال کی تصحیح کرتے رہتے تھے۔ اسی طرح مسٹر فیلن لکھنؤ جاکر مہینوں پڑے رہتے تھے اور وہاں کی بولی کی بھی ارباب کمال سے چھان پھٹک فرمایا کرتے تھے۔

کفر گیرد کافر ملت شود
ہر چہ گیرد علتی علت شود

فیلن صاحب اردو زبان پر حاوی ہو گئے تھے۔ ان کا لب و لہجہ بھی اردو بولنے میں سنور گیا تھا اور ڈاکٹر صاحب موصوف کو بھروسہ ہوگیا تھا کہ میں اردو اہل زبان کی طرح جان گیا ہوں اور اس کی وہ ہر طرح جانچ کیا کرتے تھے۔ ایک دن اسی خیال میں وہ دلّی کے کسی کوچہ سے گزر رہے تھے۔ جو انہوں نے دیکھا کہ ایک حلال خوری اپنے ڈھیلے پائنچوں کو باندھے کانوں میں موتیا کے پھول پہنے کلہ میں پان کی گلوری دبائے کولھے پر ٹوکرہ رکھے چلی آتی ہے۔ فیلن صاحب خوب جان گئے تھے کہ دلی کی حلال خوریاں پاک اردو بولتی ہیں۔ اس سے کہنے لگے، ’’کیوں بی مہترانی میں فرنگی ہوکر سچ کہنا کیسی اردو بولتا ہوں۔‘‘ مہترانی بولی، ’’صاحب میرے کولھے پر بوجھ ہے۔ اسے ذرا ڈلاؤ پر ڈال آؤں تو میں آپ کا امتحان لوں گی۔ اور سچ سچ بتادوں گی کہ آپ کو اردو آ گئی یا نری دون کی لیتے ہیں۔‘‘

صاحب نے کہا، میں کھڑا ہوں۔ تم کام کر کے پلٹ آؤ۔ حلال خوری پلٹ آئی اور فیلن صاحب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہنے لگی، ’’بھلا صاحب! بتائیے تو سہی، ہمارے شہر میں ’’چہرے کی لینی‘‘ کسے کہتے ہیں۔‘‘ یہ نئی اصطلاح سن کر فیلن صاحب کے ہوش اڑ گئے۔ اور حلال خوری کے سامنے بغلیں جھانکنے لگے۔ جب فیلن صاحب سے جواب نہ بن پڑا اور وہ نہ سمجھے کہ چہرے کی لینی کسے کہتے ہیں تو حلال خوری نے کہا، ’’جاکو کام واہی کو ساجے، اور کرے سو ٹھینگا باجے۔‘‘ دلی کی بولی دلی والے ہی بول سکتے ہیں اور جو ان کی نقل کرتا ہے وہ الگ پہچانا جاتا ہے۔

فراق دہلوی عرض کرتا ہے کہ سچ مچ اردو ایسی ہی ہے جو حلال خوری کا بیان۔ فیلن صاحب کا تو یہ قصہ سنا سنایا ہے۔ اب جو صاحب اردو کو دلی لکھنؤ کی قید سے آزاد فرما چکے ہیں، وہ تشریف لائیں اور اسی نسخہ کو آزمائیں۔ اگر الزام نہ کھائیں تو جو چور کا حال وہ میرا حال اور لاف و گزاف کے لینے کی صحیح نہیں۔


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.