زبان درگور
صبا اس سے یہ کہہ جو اس طرف ہو کر گزرتا ہو
قدم او جانے والے روک میرا حال سنتا جا
کبھی میں بھی جواں تھا میں بھی حسن و علم رکھتا تھا
وہی میں ہوں مجھے اب دیکھ اگر چشم تماشا ہو
جوانی کی امنگیں شوق علمی ذہن و طباعی
ذکاوت حوصلہ حلم و مروت رحم و غم خواری
خیال اقربا احباب کے عیبوں کی ستاری
قناعت دوست مجھ سے دور کوسوں بغض و طماعی
غرض ایسی بہت سی خوبیاں تھیں موت نے لیکن
بنا ڈالا مرے آتش کدے کو خاک کا تودا
شراروں کے عوض اب بہہ رہا ہے برف کا دریا
مسافر غور سے سن گور سے بچنا ہے نا ممکن
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |