زبان گویا

زبان گویا
by الطاف حسین حالی

اے میری بلبل ہزار داستان! اے میری طوطی شیوا بیان! اے میری قاصد! اے میری ترجمان! اے میری وکیل! اے میری زبانٍ! سچ بتا، توکس درخت کی ٹہنی اور کس چمن کا پودا ہے؟ کہ تیرے ہر پھول کا رنگ جدا اور تیرے ہر پھل میں ایک نیا مزہ ہے۔ کبھی تو ایک ساحر فسوں ساز ہے جس کے سحر کا رد، نہ جادو کا اتار۔ کبھی تو ایک افعی جاں گداز ہے جس کے زہر کی رد نہ کاٹے کا منتر۔ تو وہی زبان ہے کہ بچپن میں کبھی اپنے ادھورے بولوں سے غیروں کا جی لبھاتی تھی اور کبھی اپنی شوخیوں سے ماں باپ کادل دکھاتی تھی۔ تو وہی زبان ہے کہ جوانی میں کہیں اپنی نرمی سے دلوں کا شکار کرتی تھی اور کہیں اپنی تیزی سے سینوں کو فگار کرتی تھی۔

اے میری زبان! دشمن کو دوست بنانا اور دوست کودشمن کر دکھانا تیرا ایک ادنی کھیل ہے جس کے تماشے سیکڑوں دیکھے اور ہزاروں دیکھنے باقی ہیں۔ اے میری بنی بات کی بگاڑنے والی! اور میرے بگڑے کاموں کی سنوارنے والی! روتے کو ہنسانا اور ہنستے کو رلانا، روٹھے کو منانا اور بگڑے کو بنانا، نہیں معلوم تونے کہاں سیکھا؟ اور کس سے سیکھا؟ کہیں تیری باتیں بس کی گانٹھیں ہیں اور کہیں تیرے بول شربت کے گھونٹ ہیں، کہیں تو شہد ہے اور کہیں حنظل، کہیں تو زہر ہے اور کہیں تریاق۔

اے زبان! ہمارے بہت سے آرام اور بہت سی تکلیفیں، ہمارے سیکڑوں نقصان اور ہزاروں فائدے، ہماری عزت، ہماری ذلت، ہماری نیک نامی، ہماری بدنامی، ہمارا سچ، ہمارا جھوٹ، صرف تیری ایک ’’ہاں‘‘ اور ایک ’’نہیں‘‘ پر موقوف ہے۔ تیری اس ’’ہاں‘‘ اور ’’نہیں‘‘ نے کروڑوں کی جانیں بچائیں اور لاکھوں کے سر کٹوائے۔

اے زبان! تو دیکھنے میں تو ایک پارہ گوشت کے سوا نہیں مگر تیری طاقت نمونہ قدرت الہی ہے۔ دیکھ! اس طاقت کو رائیگاں نہ کھو اور اس قدرت کو خاک میں نہ ملا۔ راستی تیر اجوہر ہے اور آزادی تیرازیور۔ دیکھ اس جوہر کو برباد نہ کر اور اس زیور کو زنگ نہ لگا۔ تو دل کی امین ہے اور روح کی ایلچی۔ دیکھ دل کی امانت میں خیانت نہ کر اور روح کے پیغام پرحاشیے نہ چڑھا۔ اے زبان! تیرا منصب بہت عالی ہے اور تیری خدمت نہایت ممتاز، کہیں تیرا خطاب کاشف اسرار ہے اور کہیں تیرا لقب محرم راز۔ علم کہ ایک خزانہ غیبی ہے اور دل اس کا خزانچی۔ حوصلہ اس کاقفل ہے اور تو اس کی کنجی۔ دیکھ اس قفل کو بے اجازت نہ کھول اور اس خزانے کو بے موقع نہ اٹھا۔ وعظ و نصیحت تیرا فرض ہے اور تلقین و ارشاد تیرا کام۔ ناصح مشفق تیری صفت ہے اور مرشد برحق تیرا نام۔ خبردار! اس نام کوعیب نہ لگانا اور اس فرض سے جی نہ چرانا، ورنہ یہ منصب عالی تجھ سے چھن جائےگا اور تیری بساط میں وہی ایک گوشت کا چھیچڑا رہ جائےگا۔

کیا تجھ کویہ امید ہے کہ تو جھوٹ بھی بولے اور طوفان بھی اٹھائے، تو غیبت بھی کرے اور تہمت بھی لگائے، توفریب بھی کرے اور چغلیاں بھی کھائے اور پھر وہی زبان کی زبان کہلائے۔ نہیں! ہرگز نہیں!! اگر تو سچی زبان ہے تو زبان ہے ورنہ زبوں ہے بلکہ سراسر زیان ہے۔ اگر تیرا قول صادق ہے تو شہدِ فائق ہے ورنہ تھوک دینے کے لائق ہے۔ اگر تو راست گفتار ہے تو ہمارے منہ میں اور دوسروں کے دلوں میں جگہ پائےگی ورنہ گدی سے کھینچ کر نکالی جائےگی۔

اے زبان! جنہوں نے تیرا کہنا مانا اور جو تیرا حکم بجالائے انہوں نے سخت الزام اٹھائے اور بہت پچھتائے۔ کسی نے انہیں فریبی اور مکار کہا۔ کسی نے گستاخ اور منہ پھٹ ان کا نام رکھا، کسی نے ریاکار ٹھہرایا اور کسی نے سخن ساز۔ کسی نے بد عہد بنایا اور کسی نے غماز، غیبت اور بہتان، مکر اور افترا، طعن اور تشنیع، گالی اور دشنام، پھکڑ اور ضلع جگت اور پھبتی۔ غرض دنیا بھر کے عیب ان میں نکلے اوروہ ان سب کے سزاوار ٹھہرے۔ اے زبان! یاد رکھ۔ ہم تیرا کہنا نہ مانیں گے اور تیرے قابو میں ہرگز نہ آئیں گے۔ ہم تیری ڈور ڈھیلی نہ چھوڑیں گے اور تجھے مطلق العنان نہ بنائیں گے۔ ہم جان پر کھیلیں گے پر تجھ سے جھوٹ نہ بلوائیں گے۔ ہم سر کے بدلے ناک نہ کٹوائیں گے۔ اے زبان! ہم دیکھتے یں کہ گھوڑا جب اپنے آقا کو دیکھ کر محبت کے جوش میں آتا ہے توبے اختیار ہنہناتا ہے اور کتا جب پیار کے مارے بے تاب ہو جاتا ہے تو اپنے مالک کے سامنے دم ہلاتا ہے۔ سبحان اللہ! وہ نام کے جانور اور ان کا ظاہر و باطن یکساں۔ ہم نام کے آدمی اور ہمارے دل میں ’’نہیں‘‘ اور زبان پر ’’ہاں۔‘‘

الہی! اگر ہم کو رخصت گفتار ہے تو زبان راست گفتار دے اور اگردل پر تجھ کو اختیار ہے تو زبان پرہم کو اختیار دے۔ جب تک دنیا میں رہیں سچے کہلائیں اور جب تیرے دربار میں آئیں تو سچے بن کر آئیں۔ آمین۔

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse