زحمت مہر درخشاں
بمبئی چھوڑ کر کراچی سے ہوتا ہوا غالباً سات یا آٹھ جنوری ۱۹۴۸ء کو یہاں لاہور پہنچا۔ تین مہینے میرے دماغ کی عجیب و غریب حالت رہی۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں کہاں ہوں۔ بمبئی میں ہوں۔ کراچی میں اپنے دوست حسن عباس کے گھر بیٹھا ہوں یا لاہور میں ہوں جہاں کئی ریستورانوں میں قائد اعظم فنڈ جمع کرنے کے سلسلے میں رقص و سرود کی محفلیں اکثر جمتی تھیں۔
تین مہینے تک میرا دماغ کوئی فیصلہ نہ کر سکا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پردے پر ایک ساتھ کئی فلم چل رہے ہیں۔ آپس میں گڈمڈ۔۔۔ کبھی بمبئی کے بازار اور اس کی گلیاں، کبھی کراچی کی چھوٹی چھوٹی تیز رفتار ٹریمیں اور گدھا گاڑیاں اور کبھی لاہور کے پرشور ریستوران۔۔۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا میں کہاں ہوں۔۔۔ سارا دن کرسی پر بیٹھا خیالات میں کھویا رہتا۔ آخر ایک دن چونکا کیونکہ جو روپیہ میں بمبئی سے اپنے ساتھ لایا تھا، کچھ تو گھر میں اور کچھ گھر سے کچھ دور کلفٹن بار میں جذب ہو چکا تھا۔۔۔ اب مجھے قطعی طور پر معلوم ہو گیا کہ میں لاہور میں ہوں۔ جہاں کبھی کبھی میں اپنے مقدمات کے سلسلے میں آیا کرتا تھا اور کرنال شاپ سے بہت سے خوبصورت چپل خرید کر اپنے ساتھ لے جایا کرتا تھا۔
میں نے سوچنا شروع کیا کہ اب کیا کام کیا جائے۔ استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ تقسیم کے بعد فلمی کاروبار قریب قریب مفلوج ہو چکا ہے جن فلم کمپنیوں کے بورڈ نظر آتے ہیں، وہ ان بورڈوں ہی تک محدود ہیں۔۔۔ بہت تشویش ہوئی۔۔۔ الاٹمنٹوں کا بازار گرم تھا۔ مہاجر اور غیر مہاجر دھڑا دھڑ اپنے اثر و رسوخ سے کارخانے اور دکانیں الاٹ کرا رہے تھے۔ مجھے مشورہ دیا گیا، مگر میں نے اس لوٹ کھسوٹ میں حضہ نہ لیا۔
انہی دنوں معلوم ہوا کہ فیض احمد فیض اور چراغ حسن حسرت مل کر ایک روزنامہ جدید خطوط پر شائع کرنے کا ارادہ کر رہے ہیں۔ میں ان حضرات سے ملا۔ اخبار کا نام ’’امروز‘‘ تھا جو آج ہر ایک کی زبان پر ہے۔ پہلی ملاقات پر اخبار کی ’’ڈمی‘‘ تیار کی جا رہی تھی۔ دوسری ملاقات ہوئی تو ’’امروز‘‘ کے غالباً چار پرچے نکل چکے تھے۔ اخبار کی گٹ اپ دیکھ کر جی بہت خوش ہوا۔ طبیعت میں اکساہٹ پیدا ہوئی کہ لکھوں لیکن جب لکھنے بیٹھا تو دماغ کو منشتر پایا۔ کوشش کے باوجود ہندوستان کو پاکستان سے اور پاکستان کو ہندوستان سے علیحدہ نہ کر سکا۔ بار بار دماغ میں یہ الجھن پیدا کرنے والا سوال گونجتا۔ کیا پاکستان کا ادب علیحدہ ہوگا۔۔۔ اگر ہو گا تو کیسے ہوگا۔ وہ سب کچھ جو سالم ہندوستان میں لکھا گیا تھا اس کا مالک کون ہے۔۔۔ کیا اس کو بھی تقسیم کیا جائے گا۔۔۔ کیا ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کے بنیادی مسائل ایک جیسے نہیں۔۔۔ کیا ادھر اردو بالکل ناپید ہو جائے گی۔ یہاں پاکستان میں اردو کیا شکل اختیار کے گی۔۔۔ کیا ہماری اسٹیٹ مذہبی اسٹیٹ ہے۔۔۔ اسٹیٹ کے تو ہم ہر حالت میں وفادار رہیں گے مگر کیا ہمیں حکومت پر نکتہ چینی کی اجازت ہوگی۔۔۔ آزاد ہو کر کیا یہاں کے حالات فرنگی عہد حکومت کے حالات سے مختلف ہوں گے۔
گردوپیش جدھر بھی نظر ڈالتا تھا، انتشار ہی انتشار دکھائی دیتا تھا۔ کچھ لوگ بے حد ہوش تھے۔ کیونکہ ان کے پاس ایک دم دولت آ گئی تھی، لیکن اس خوشی میں بھی انتشار تھا۔ جیسے وہ بکھر کر ایک دن ہوا ہو جانے والی ہے۔۔۔ اکثر مغموم و متفکر تھے کیونکہ وہ لٹ پٹ کر آئے تھے۔۔۔ مہاجروں کے کیمپ دیکھے۔ یہاں خود انتشار کے رونگٹے کھڑے دیکھے۔ کسی نے کہا اب تو حالات بہت بہتر ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے کی حالت دیدنی تھی۔ میں سوچنے لگا اگر یہ حالات کی بہتری ہے تو ابتری معلوم نہیں کیسی ہوگی۔۔۔ غرض کہ عجیب افراط و تفریط کا عالم تھا۔ ایک کا قہقہہ دوسرے کی آہ سے دست و گریباں تھا۔ ایک کی زندگی دوسرے کے عالم نزع سے مصروف پیکار تھی۔ دو دھارے بہہ رہے تھے۔ ایک زندگی کا دھارا۔ ایک موت کا۔ ان کے درمیان خشکی تھی جس پر گر سنگی و تشنگی، شکم سیری و بلا نوشی ساتھ ساتھ چلتی تھیں۔۔۔!
فضا پر مردنی طاری تھی۔ جس طرح گرمیوں کے آغاز میں آسمان پر بے مقصد اڑتی ہوئی چیلوں کی چیخیں اداس ہوتی ہیں، اسی طرح ’’پاکستان زندہ باد‘‘ اور ’’قائد اعظم زندہ باد‘‘ کے نعرے بھی کانوں کو اداس اداس لگتے تھے۔ ریڈیو کی لہریں اقبال مرحوم کا یک آہنگ کلام شب و روز اپنے کاندھوں پر اٹھا اٹھا کر تھک اور اکتا گئی تھیں۔ فیچر پروگرام کچھ اس قسم کے ہوتے تھے کہ مرغیاں کس طرح پالی جاتی ہیں۔ جوتے کیسے بنائے جاتے ہیں۔ فن زراعت کیا ہے۔ ریفیوجی کیمپوں میں کتنے آدمی آئے اور کتنے گئے۔ قریب قریب تمام درخت ننگے بچے تھے۔۔۔ سردیوں سے بچنے کےلئے غریب مہاجرین نے ان کی چھال اتار کر اپنی کھال گرم کی تھی۔ ٹہنیاں کاٹ کر پیٹ کی آگ ٹھنڈی کی تھی۔ ان ننگے بچے درختوں سے فضا اور بھی دل شکن حد تک اداس ہو گئی تھی۔ بلڈنگوں کی طرف دیکھتا تھا تو ایسا محسوس ہوتا تھا سوگ میں ہیں۔ ان کے مکیں بھی ماتم زدہ تھے۔ بظاہر ہنستے تھے۔ کھیلتے تھے۔ کوئی کام مل جاتا تھا تو وہ بھی کرتے تھے مگر گویا یہ سب کچھ خلا میں ہو رہا تھا۔ ایک ایسے خلا میں جو لبالب ہونے پر بھی خالی تھا۔
میں اپنے عزیز دوست احمد ندیم قاسمی سے ملا۔ ساحر لدھیانوی سے ملا۔ ان کے علاوہ اور لوگوں سے بھی ملا۔ سب میری طرح ذہنی طور پر مفلوج تھے۔ میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ یہ جو اتنا زبردست بھونچال آیا ہے، شاید اس کے کچھ جھٹکے آتش فشاں پہاڑ میں اٹکے ہوئے ہیں۔ باہر نکل آئیں تو فضا کی نوک پلک درست ہوگی، پھر صحیح طور پر معلوم ہو سکے گا کہ صورت حالات کیا ہے۔
سوچ سوچ کر میں عاجز آ گیا تھا، چنانچہ آوارہ گردی شروع کر دی۔ بے مطلب سارا دن گھومتا رہتا۔ خود خاموش رہتا لیکن دوسروں کی سنتا رہتا۔۔۔ بے ہنگم باتیں، بے جوڑ دلیلیں، خام سیاسی مباحثے۔۔۔ اس آوارہ گردی سے یہ فائد ہ ہوا کہ میرے دماغ میں جو گردوغبار اڑ رہا تھا، آہستہ آہستہ بیٹھ گیا اورمیں نے سوچا کہ ہلکے پھلکے مضامین لکھنا چاہئیں۔ چنانچہ میں نے ’’ناک کی قسمیں‘‘، ’’دیواروں پر لکھنا‘‘ جیسے فکاہیہ مضامین ’’امروز‘‘ کے لئے لکھے جو پسند کئے گئے۔۔۔ آہستہ آہستہ مزاح خود بخود طنزیہ رنگ اختیار کر گیا۔ یہ تبدیلی مجھے بالکل محسوس نہ ہوئی۔ میں لکھتا گیا اور میرے قلم سے ’’سوال پیدا ہوتا ہے‘‘ اور ’’سویرے جو کل آنکھ میری کھلی‘‘ جیسے تیز و تند مضمون نکل گئے۔ جب مجھے اس امر کا احساس ہوا کہ میرے قلم نے گردوپیش چھائی ہوئی دھند میں ٹٹول ٹٹول کر ایک راستہ تلاش کر لیا ہے تو مجھے خوشی ہوئی۔ دماغ کا بوجھ بھی کسی قدر ہلکا ہو گیا۔ میں نے زور شور سے لکھنا شروع کر دیا۔ مضامین کا یہ مجموعہ بعد میں ’’تلخ ترش اور شیریں‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔
طبیعت افسانے کی طرف مائل نہیں ہوتی تھی۔ اس صنف ادب کو میں بہت سنگین سمجھتا ہوں۔ اس لئے افسانہ لکھنے سے گریز کرتا تھا، لیکن انہی دنوں میرے عزیز دوست احمد ندیم قاسمی جو غالباً اوٹ پٹانگ چیزیں لکھ لکھ کر تنگ آ گئے تھے، ریڈیو پاکستان، پشاور سے علیحدہ ہو کر لاہور چلے آئے اور ادارہ فروغ اردو کے اشتراک سے ایک ماہنامہ پرچہ ’’نقوش‘‘ جاری کیا۔ ان کے اصرار کے باوجود میں ’’نقوش‘‘ کے پہلے چند پرچوں کے لئےکوئی کہانی نہ لکھ سکا۔ جب وہ ناراض ہو گئے تو میں نے پاکستان میں اپنا پہلا افسانہ ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ لکھا جو میرے اس مجموعے کا اب عنوان ہو گیا ہے۔
قاسمی صاحب نے یہ افسانہ میرے سامنے پڑھا۔ وہ خاموش پڑھتے رہے، مگر مجھے ان کا رد عمل معلوم نہ ہو سکا۔ افسانہ ختم کرنے کے بعد انہوں نے مجھ سے معذرت بھرے لہجے میں کہا، ’’منٹو صاحب معاف کیجئے، افسانہ بہت اچھا ہے، لیکن ’نقوش‘ کے لئے بہت گرم ہے۔‘‘ قاسمی صاحب سے کبھی بحث نہیں ہوئی تھی، اس لئے میں نے خاموشی سے افسانہ واپس لے لیا اور ان سے کہا، ’’بہت بہتر تو میں آپ کے لئے دوسرا افسانہ لکھ دوں گا آپ کل شام تشریف لے آیئے گا۔‘‘ قاسمی صاحب جب دوسرے روز شام کو تشریف لائے تو میں اپنے دوسرے افسانے ’’کھول دو‘‘ کی اختتامی سطور لکھ رہا تھا، میں نے قاسمی صاحب سے کہا، ’’ایک منٹ۔۔۔ آپ بیٹھئے، میں افسانہ مکمل کر کے آپ کو دیتا ہوں۔۔۔ اس افسانے کی اختتامی سطور چونکہ بہت ہی اہم تھیں اس لئے قاسمی صاحب کو کافی دیر انتظار کرنا پڑا۔ جب افسانہ مکمل ہو گیا تو میں نے مسودہ ان کے حوالے کر دیا، ’’پڑھ لیجئے۔ خدا کرے آپ کو پسند آ جائے۔‘‘
قاسمی صاحب نے افسانہ پڑھنا شروع کیا۔ اختتامی سطور پر پہنچے تو میں نے نوٹ کیا جیسے کسی نے ان کو جھنجھوڑ دیا ہے۔۔۔ افسانہ ختم کرنے کے بعد وہ کچھ نہ بولے۔ میں نے ان سے پوچھا، ’’کیسا ہے؟‘‘ قاسمی صاحب پر افسانے کا اثر ابھی تک غالب تھا۔ مختصراً کہا، ’’اچھا ہے۔۔۔ میں لئے جاتا ہوں۔‘‘ اور آپ رخصت لے کر چلے گئے۔ ’’کھول دو‘‘ قاسمی صاحب کے پرچے ’’نقوش‘‘ میں شائع ہوا۔ قارئین نے پسند کیا۔ ہر ایک کا رد عمل یکساں تھا۔ آخری سطور سب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی تھیں، لیکن ایک دم ہم سب کو جھنجھوڑ کر رکھ دینے والا حادثہ وقوع پذیر ہوا۔ حکومت کو یہ افسانہ امن عامہ کے مفاد کے منافی نظر آیا، چنانچہ حکم ہوا، ’’نقوش‘‘ کی اشاعت چھ مہینے تک بند رہے۔۔۔ اخباروں میں حکومت کے اس اقدام کے خلاف احتجاجاً بہت کچھ لکھا گیا مگر امتناعی حکم اپنی جگہ پر قائم رہا۔ میں نے ایک روز قاسمی صاحب سے مسکرا کر کہا، ’’اگر آپ ’ٹھنڈا گوشت‘ شائع کرتے تو شاید یہ بجلی آپ کے آشیانے پر نہ گرتی۔‘‘
کافی دن گزرنے پر ’’ادب لطیف‘‘ کے نائب مدیر میرے پاس آئے اور ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ لے گئے۔۔۔ افسانے کی کتابت ہو گئی۔ کاپیاں جم گئیں۔ پروف نکل آئے۔ غلطیاں درست کر کے جب واپس پریس میں گئیں تو کسی کی نظر ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ والی کاپی پر پڑی۔ اس نے افسانہ پڑھا تو چھاپنے سے انکار کر دیا۔ قہر درویش برجان درویش، اس افسانے کے بغیر ہی پرچہ شائع کیا گیا۔ چودھری برکت علی صاحب کوئٹے میں تھے۔ واپس آئے تو انہوں نے ’’ادب لطیف‘‘ کے دوسرے شمارے میں ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ چھپوانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔۔۔ افسانے کا مسودہ مجھے واپس دے دیا گیا۔
اس دوران میں کراچی سے محترمہ ممتاز شیریں کے متعدد خط آ چکے تھے کہ میں ان کے ’’نیا دور‘‘ کے لئے کوئی افسانہ بھیجوں۔ میں نے اٹھا کر ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ ان کو روانہ کر دیا۔ کافی دیر کے بعد جواب آیا کہ ہم دیر تک سوچتے رہے کہ اسے شائع کیا جائے یا نہیں۔ افسانہ بہت اچھا ہے۔ مجھے بہت پسند ہے لیکن ڈر ہے کہ حکومت کے احتساب کے شکار نہ ہو جائیں۔ ’ٹھنڈا گوشت‘ یہاں سے بھی ٹھنڈا ہو کر واپس میرے پاس پہنچ گیا۔۔۔ میں نے سوچا اب اسے کسی رسالے میں نہیں چھپوانا چا ہیئے۔
چھ مہینے کی مدت پوری نہیں ہوئی تھی کہ حکومت نے ’’نقوش‘‘ پر سے ’’نہ چھاپو‘‘ والی قید ہٹا دی، چنانچہ میں نے ’’نیا ادارہ‘‘ کے لئے ایک مجموعہ مرتب کیا جس کا عنوان میں نے ’’نمرود کی خدائی‘‘ رکھا، اس میں ’’کھول دو‘‘ کے ساتھ میں نے ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ بھی شامل کر دیا، مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ عزیزی عارف عبد المتین رسالہ ’’جاوید‘‘ کے ایڈیٹر مقرر ہوئے تو آپ میرے پیچھے پڑ گئے کہ ان کو ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ کا مسودہ اشاعت کے لئے دوں۔ کافی دیر میں نے ٹال مٹول کی مگر آخر ان کے پیہم اصرار پر میں نے ’’نیا ادارہ‘‘ کے مالک چودھری نذیر احمد صاحب کو ایک چٹ لکھ دی کہ یہ ’’جاوید‘‘ والے اپنا پرچہ ضبط کرانا چاہتے ہیں۔۔۔ براہ کرم ان کو ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ کا مسودہ دے دیجئے۔ عارف صاحب افسانے کا مسودہ لے آئے اور اسے ’’جاوید‘‘ کے خاص نمبر مطبوعہ مارچ ۱۹۴۹ء میں شائع کر دیا۔
پرچہ چھپ کر مارکیٹ میں آ گیا۔ اندرونی اور بیرونی ایجنسیوں میں بھی تقسیم ہو گیا۔ یہاں تک تو خیریت رہی۔ ایک مہینہ گزر گیا۔ میں مطمئن ہو گیا کہ اب ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ پر کوئی آفت نہیں آئے گی، مگر پریس برانچ کی باگیں ابھی تک چودھری محمد حسین صاحب (اب مرحوم) کے ہاتھ میں تھیں۔ گو ضعیفی کے باعث ان کے ہاتھ بہت کمزور ہو چکے تھے۔ مگر انہوں نے زور کا ایک جھٹکا دیا اور پولیس کی مشینری حرکت میں آ گئی۔ میں نے ایک روز اڑتی اڑتی سنی کہ چھاپہ پڑا ہے اور پولیس ’’جاوید‘‘ کے خاص نمبر کے پرچے اٹھا کر لے گئی ہے۔ میں نے جان پہچان کے چند لوگوں سے پوچھا۔ کسی نے اس خبر کی تصدیق کی۔ کسی نے کہا، ’’اجی ہٹایئے، یہ جاوید والوں کا پبلسٹی اسٹنٹ ہے۔‘‘ اس دوران میں ’’جاوید‘‘ کے مالک مسٹر نصیر انور کا رقعہ ملا۔
’’منٹو صاحب! ایک خبر سنئے۔۔۔ آج پولیس نے دفتر ’’جاوید‘‘ پر چھاپہ مارا۔ تلاشی لینے پر بچے کھچے چند پرچے اپنے قبضے میں لے لئے۔ باقی پرچوں کی جانچ پڑتال ہوئی تو ڈسپیچ رجسٹر نے واضح کر دیا کہ تمام پرچہ ہندو پاک کے مختلف اسٹیشنوں پر سپلائی ہو چکا ہے۔ رجسٹر میں سے تمام ایجنسیوں کے پتے نوٹ کر لئے گئے اور آئندہ سپلائی کا حساب کتاب بند کر دیا گیا۔ یہ کارروائی گرفتاری کا پیش خیمہ ہے اور مجھے یقین ہے کہ جلد ہی ملزموں کے کٹہرے میں ہوں گے۔۔۔ لیکن ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ ایک مقامی ادارہ اس چھاپے کو اختراع اور پروپیگنڈے سے منسوب کرتا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ ایسا کیوں ہے۔ خیر اس کی تصدیق خود بخود ہو جائے گی۔ مجھے تو یہ کہنا ہے کہ اب ذرا وہیں چلیئے۔ جہاں تین بار سزا پانے پر آپ بری قرار دیے گئے۔ میرا خیال ہے کہ یہ بار آخری بار ہوگی۔‘‘
خبر کی تصدیق ہو گئی۔ معاملہ پریس ایڈوائزری بورڈ کے سامنے پیش ہوا جس کے کنوینر کرنل فیض احمد فیضؔ ایڈیٹر پاکستان ٹائمز تھے۔ اس میں ’’جاوید‘‘ کے مالک مسٹر نصیر انور بھی موجود تھے۔ ان کی زبانی اس میٹنگ کی مختصر روئیداد سنئے، ’’پاکستان ٹائمز کے دفتر میں پریس ایڈوائزری بورڈ کی میٹنگ تھی۔ فیض احمد فیضؔ کنوینر تھے۔ میٹنگ میں ایف ڈبلیو بسٹن (سول ملٹری گزٹ) مولانا اختر علی (زمیندار) حمید نظامی (نوائے وقت) وقار انبالوی (سفینہ) اور امین الدین صحرائی (جدید نظام) شریک تھے۔ چودھری محمد حسین نے ’’جاوید‘‘ کا خاص نمبر پیش کیا۔ آپ نے سب سے پہلے پرچے کے باغیانہ اور اشتعال انگیز مضامین نظم و نثر گنوائے۔ ’’غلامی سے آزادی تک‘‘، ’’رقص بسمل‘‘، ’’سیلاب چین‘‘ یہ تھیں نظمیں۔ مضامین میں سے ’’لورینگ سے فلیٹی تک‘‘، ’’کھیڑا بہادر کی جے‘‘ اور ’’چین کتنی دور ہے‘‘ زیر بحث لائے گئے۔
فیض حکومت کے عائد کردہ الزام کی تردید کرتے رہے۔ دیگر اراکین نے ہاں میں ہاں ملائی اور یوں یہ سیاسی الزام ٹل گیا، لیکن نزلہ گرا ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ پر۔ فیض نے جب اسے غیر فحش قرار دیا تو مولانا اختر علی گرج اٹھے۔ ’’نہیں نہیں، اب ایسا ادب پاکستان میں نہیں چلے گا۔‘‘ جناب صحرائی نے اس پر صاد کیا۔ وقار صاحب نے افسانے کو ملعون و مطعون قرار دیا۔ حمید نظامی نے نوائے وقت کا ساتھ دیا اور جب ایف ڈبلیو بسٹن کو چودھری صاحب نے انگریزی میں ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ سمجھایا تو مجھے بے اختیار ہنسی آ گئی۔ فرمانے لگے، ’’اس کہانی کی تھیم یہ ہے کہ ہم مسلمان اتنے بے غیرت ہیں کہ سکھوں نے ہماری مردہ لڑکی تک نہیں چھوڑی۔۔۔‘‘ مجھے ہنسی تو آ گئی تھی، لیکن جب صاحب غلط ترجمانی پر مصر رہے تو مجھے افسوس ہوا۔۔۔ میں نے لاکھ سمجھایا۔ فیض صاحب نے بھی ہر طرح سے اطمینان دلایا، لیکن فیصلہ یہ ہوا کہ اب عدالت ہی اس کا فیصلہ کرے۔‘‘
چنانچہ چند دن بعد میں، نصیر انور اور عارف عبد المتین گرفتار کر لئے گئے۔ گرفتار کرنے والے سب انسپکٹر چودھری خدا بخش تھے۔ بے حد شریف، کئی دن میرے مکان کے چکر کاٹتے رہے۔ ان دنوں میں اکثر باہر ہوتا۔ آخر ایک روز وہ مجھ سے ملنے میں کامیاب ہو گئے۔ بڑے اخلاق سے پیش آئے اور کہا، ’’کل صبح کسی دوست کے ساتھ تھانہ سول لائنز میں تشریف لے آیئے گا تاکہ آپ کی ضمانت ہو جائے۔‘‘ اس سے پہلے کئی مرتبہ مجھے پولیس کے آدمیوں سے پالا پڑ چکا تھا۔ چودھری خدا بخش صاحب کا نرم رویہ مجھ پر بہت اثر انداز ہوا۔ دوسرے روز صبح کو میں تھانے میں حاضر ہو گیا۔ میرے دوست شیخ سلیم نے دستخط کئے اور ہم مقدمے کے پہلے مرحلے سے فارغ ہو گئے۔ عارف عبدالمتین بہت ہی پریشان تھے۔ ان کا حلق خشک ہو جاتا تھا۔ یہ حیرت کی بات ہے۔ کیونکہ وہ کمیونسٹ پارٹی کے سرگرم کارکن ہیں۔ عدالت سے خدا معلوم کیوں اتنے خائف تھے۔ بہرحال سمن جاری ہوئے۔ سماعت کی تاریخ مقرر ہوئی اور ہم تینوں ضلع میں حاضر ہوئے۔
میرے لئے یہ جگہ کوئی نئی جگہ نہیں تھی۔ اپنے پچھلے تین مقدموں کے سلسلے میں یہاں کئی مرتبہ آ چکا تھا اور دھول پھانک چکا تھا۔۔۔ نام تو ضلع کچہری ہے لیکن بے حد غلیظ جگہ ہے۔ مچھر، مکھیاں، کیڑے مکوڑے۔۔۔ ہتھکڑیوں اور بیڑیوں کی جھنکاریں، نہایت ہی دقیانوس ٹائپ رائٹروں کی اکتا دینے والی ٹپ ٹپ۔ تین ٹانگوں والی کرسیاں جن کی نشست کا بیدہی غائب ہے۔ دیواروں پر سے پلستر اکھڑ رہا ہے۔ باغ ہے جس کا لان افلاس زدہ میلے کچیلے کشمیری کے سر کی طرح گنجا ہے۔ برقع پوش عورتیں ننگے گرد سے اٹے ہوئے فرش پر آلتی پالتی مارے بیٹھی ہیں۔ کوئی گندی گالیاں بک رہا ہے۔ کوئی بسور رہا ہے۔ اندر کمروں میں مجسٹریٹ صاحبان نہایت ہی واہیات میزوں کے پاس بیٹھے مقدموں کی سماعت فرما رہے ہیں۔ پاس دوست یار بیٹھے ہیں۔ دوران سماعت میں ان سے بھی گفتگو جاری رہتی ہے۔
الفاظ ضلع کچہری کی صحیح تصویر نہیں کھینچ سکتے۔۔۔ یہاں کی فضا الگ۔ یہاں کا ماحول الگ۔ یہاں کی زبان الگ۔ یہاں کی اصطلاحات الگ۔۔۔ عجیب و غریب جگہ ہے۔ خدا اس سے دور ہی رکھے۔ آپ کو نقل لینی ہو تو درخواست کے ساتھ ’’پہیے‘‘ لگانے پڑیں گے۔ کوئی مثل معائنے کے لئے نکلوانی ہو تو بھی ’’پہیے‘‘ لگانے پڑیں گے۔ کسی افسر سے ملنا ہو تو بھی ’’پہیے‘‘ لگانے پڑیں گے۔ اگر کام فوری کرانا ہے تو پہیوں کی تعداد بڑھ جائے گی۔۔۔ غور سے دیکھنے کی ضرورت نہیں، اگر آپ کی آنکھیں دیکھ سکتی ہیں تو آپ کو ضلع کچہری میں ہر عرضی پہیوں پر چلتی نظر آئے گی۔ ایک دفتر سے دوسرے دفتر تک چار پہیے۔ دوسرے دفتر سے تیسرے دفتر تک جانے کے لئے آٹھ پہیے وقس علی ہذا۔ اگر آپ عادی مجرم نہیں تو آپ کے دل میں یہ زبردست خواہش پیدا ہو گی کہ کوئی آپ کے پہیے لگا دے اور دھکا دے دے تاکہ آپ ضلع کچہری سے باہر نکل جائیں۔
وکیل کا سوال درپیش تھا۔ عدالت میں حاضر ہونے سے پہلے جناب تصدق حسین خالد سے ملاقات ہوئی۔ آپ نے کمال مہربانی سے خود ہی کہا کہ وہ ہمارے مقدمے کی پیروی کرنے میں مسرت محسوس کریں گے، چنانچہ ان کو ہی تکلیف دی گئی۔ خالد صاحب آئے۔ ہم ملزمین میاں اے ایم سعید پی سی ایس مجسٹریٹ درجہ اول کی عدالت میں پیش ہوئے۔ میاں صاحب موصوف کسی زمانے میں کپتانی کے عہدے پر فائز تھے۔ مگر اب ان سے بندوق لے کر عدل و انصاف کی ترازو ان کے ہاتھ میں دے دی گئی تھی۔۔۔ چھوٹی چھوٹی تیز آنکھیں، چھریرا بدن، رنگ سانولا۔۔۔ کرسی پر بڑی تمکنت سے بیٹھے تھے۔ ہم ملزمین سلام کر کے کٹہرے میں کھڑے ہوئے تو اب ہماری طرف دیکھے بغیر میاں تصدق حسین خالد کی طرف متوجہ ہوئے۔ ایک بار پھر ضمانتیں ہوئیں۔ اس کے بعد دوسری سماعت کی تاریخ مل گئی۔ ہم نے میاں سعید صاحب کو سلام کیا اور عدالت سے باہر نکل آئے۔۔۔ جون کا مہینہ تھا۔ سب کے حلق خشک تھے۔ مگر عارف عبدالمتین کا حلق تو بالکل لکڑی ہو رہا تھا۔۔۔ کاش وہاں کوئی پارٹی ممبر ہوتا۔
دو تین پیشیاں اس طرح بھگتے۔ موسم ظالمانہ حد تک گرم ہو چکا تھا، لیکن قہر درویش برجان درویش، ’’آواز پڑنے تک‘‘ عدالت کے باہر کھڑے رہتے۔ کیونکہ ڈر تھا کہ اگر ہم ادھر ادھر ہو گئے تو مجسٹریٹ صاحب کا قہر نازل ہو جائے گا۔ شروع ہی سے ان کا رویہ بہت سخت تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ پہلے ہی سے اپنے دل میں ہمارے خلاف فیصلہ مرتب کر چکے ہیں۔ میاں خالد نے مجھ سے کہا، ’’کیوں نہ ہم اس عدالت سے اپنا مقدمہ منتقل کرا لیں۔ مجسٹریٹ کا رویہ صاف مخاصمانہ ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’میاں صاحب چھوڑیئے۔ دوسری عدالت میں مقدمہ لے گئے تو کیا ہمیں وہاں لڈو پیڑے کھلائے جائیں گے۔ رہنے دیجئے مقدمے کو یہیں۔‘‘ میاں خالد مان گئے۔ چنانچہ دو تین پیشیاں بھگتے۔ استغاثے کی طرف سے مسٹر محمد یعقوب ولد میاں غلام قادر منیجر کپور آرٹ پریس لاہور، شیخ محمد طفیل حلیم اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ ڈی سی آفس لاہور، سید ضیاء الدین احمد مترجم پریس برانچ پنجاب گورنمنٹ اور چند اور حضرات رسمی طور پر پیش کئے گئے۔
سید ضیاء الدین نے کہا کہ میری رائے میں ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ تمام کا تمام فحش ہے۔ میاں خالد کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ جہاں تک مصنف کی کوشش کا تعلق ہے وہ نیک ہے، مگر انداز اظہار اور استعمال الفاظ غلط ہے۔ میاں خالد نے گواہ سے ایک اور سوال کیا، ’’کیا مصنف کو اپنے کردار کے منہ میں ایسے الفاظ نہیں ڈالنے چاہئیں جو اس کی صحیح شخصیت پیش کریں۔‘‘ سید صاحب نے جواب دیا، ’’جس قسم کا کردار ہو ویسے ہی الفاظ استعمال کرنے چاہئیں۔‘‘ آپ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ مصنف کا یہ کام ہے کہ وہ اچھے برے کردار تخلیق کرے۔
شہادت استغاثہ ختم ہوئی۔ مجسٹریٹ صاحب نے حسب ضابطہ رسمی طور پر ہم سے چند سوال کئے جن کا مختصر جواب دے دیا گیا۔ یہ سلسلہ عدالتی زبان میں ’’استفسار ملزم بلاحلف‘‘ کہلاتا ہے اور کچھ اس قسم کا ہوتا ہے۔
سوال عدالت، آپ پر الزام ہے کہ آپ نے بحیثیت مصنف مضمون ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ جو کہ رسالہ ’’جاوید‘‘ کے خاص نمبر میں بغرض اشاعت نصیر انور پرنٹر و پبلشر ملزم ہمراہی اور عارف عبد المتین اور نصیر انور ایڈیٹر رسالہ مذکور کو، جو کہ فحش تھا دیا۔ یہ جرم زیر دفعہ ۲۹۲ تعزیرات ہند کی تعریف میں آتا ہے۔ آپ وجہ ظاہر کریں کہ کیوں نہ آپ کو اس جرم کی سزا دی جائے؟
جواب، (جو خالد صاحب نے میری طرف سے دیا) میں نے افسانہ ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ ’جاوید‘ میں بغرض اشاعت دیا، لیکن وہ فحش نہیں تھا اور نہ میں اسے فحش تصور کرتا ہوں۔ یہ افسانہ اصلاحی ہے۔
سوال عدالت، مقدمہ کیوں بنایا گیا؟
جواب، پولیس بہتر جانتی ہے۔ اس کا نقطۂ اخلاق و اصلاح ہم سے مختلف ہے۔
سوال عدالت، کچھ اور کہنا چاہتے ہیں؟
جواب، اس موقعہ پر نہیں!
اب ہم سے صفائی کے گواہوں کی فہرست پیش کرنے کے لئے کہا گیا۔ یہ فہرست ہم نے پہلے ہی سے تیار کر رکھی تھی۔ چنانچہ فوراً پیش کر دی گئی۔ میاں سعید صاحب نے جب بتیس نام دیکھے تو خفا ہو گئے۔ کہا، ’’میں اتنا ہجوم نہیں بلا سکتا۔‘‘ میاں خالد نے اصرار کیا کہ ہر گواہ اپنی جگہ پر بہت اہم ہے۔ میاں سعید نے اپنے انداز میں مضحکہ اڑانے کی کوشش کی۔ ممتاز شیریں صاحبہ کا نام پڑھا تو اشارہ کیا، ’’یہ ممتاز شانتی کون ہے؟‘‘ عدالت کے آدمی میاں صاحب کے اس مذاق پر ہنسے۔ ہم ہونٹ بھینچے خاموش رہے۔ بڑی مشکلوں کے بعد مجسٹریٹ صاحب درجہ اول چودہ گواہ بلانے پر راضی ہوئے، چنانچہ فہرست پر نشان لگا دیے گئے۔ سمن جاری ہوئے۔ میں کسی گواہ سے نہ ملا کیونکہ میں چاہتا تھا کہ ہر ایک میرے افسانے کے متعلق اپنی بے لاگ رائے دے تاکہ مجھے اپنی صحیح پوزیشن معلوم ہو سکے۔
جن گواہوں کے سمن کی تعمیل ہو چکی تھی ان کو صبح سویرے عدالت میں حاضر ہونا پڑتا تھا۔ میں بے حد شرمندہ تھا کیونکہ غریب کام کاج چھوڑ کر کئی کئی گھنٹے کھڑے رہتے تھے۔ ہم تو ملزم تھے لیکن ان کی حالت بھی ہم جیسی تھی۔ ہم اندر کٹہرے میں کھڑے رہتے تھے اور وہ عدالت کے باہر لوہے کے جنگلے کے ساتھ لگے انتظار کرتے رہتے تھے کہ انہیں کب آواز پڑتی ہے۔ میرے دوست شیخ سلیم کی حالت قابل رحم تھی۔ صبح شام پینے کا عادی۔ سارا وقت جمائیاں لیتا رہتا تھا۔ آخر اس سے یہ اذیت برداشت نہ کی گئی۔ چھوٹی بوتل میں وسکی بھر کے لے آتا اور تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد پیتا رہتا۔۔۔ ادب سے اس کو دور کا بھی واسطہ نہیں۔۔۔ لیکن جب وہ دوسروں سے باتیں کرتا تو یہی کہتا، ’’آخر فحاشی ہے کیا۔ منٹو کا افسانہ ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ میں نے پڑھا نہیں لیکن یہ فحش نہیں ہو سکتا۔ منٹو آرٹسٹ ہے۔‘‘
ہماری طرف سے پہلے گواہ سید عابد علی عابد ایم اے ایل ایل بی پرنسپل دیال سنگھ کالج، لاہور تھے۔ آپ نے بیان دیتے ہوئے کہا، ’’میں نے رسالہ ’جاوید‘ میں ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ پڑھا ہے۔۔۔ یہ ایک ادب پارہ ہے۔۔۔ منٹو صاحب کی میں نے تمام تصانیف پڑھی ہیں۔ پریم چند کے بعد جو مختصر افسانہ نگار مشہور ہوئے، ان میں سعادت حسن منٹو کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔۔۔ اس افسانے سے ایشر سنگھ کے کردار کا نمایاں ترین اثر یہ ہے کہ اس نے جو ناروا حرکت کی، اس کی سزا اسے فطرت کی طرف سے نفسیاتی نامردی کی صورت میں مل گئی۔‘‘
عدالت کے ایک سوال پر عابد صاحب نے کہا، ’’ولی ؔ سے لے کر غالبؔ تک سب وہ چیز جسے فحش کہا جاتا ہے لکھتے چلے آئے ہیں۔ لٹریچر کبھی فحش نہیں ہوتا، جو ایک بار لٹریچر قرار دیا جا چکا ہو۔‘‘
استغاثے کی طرف سے سوال کیا گیا، ’’کیا ادب مقصود بالذات ہے۔‘‘ عابد صاحب نے جواب دیا، ’’میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ ادب تنقید حیات ہے اور اس میں اس سوال کا جواب شامل ہے۔ ہر معقول انسان کے قول اور فعل کا مطلب ہوتا ہے، لیکن تمام انسان معقول نہیں ہوتے۔ ہر قول یا فعل سوسائٹی کی نظروں میں اچھا یا برا ہو سکتا ہے۔ اچھے اور برے فعل جانچنے کے لئے بے شمار معیار ہوتے ہیں۔‘‘ استغاثے کے ایک اور سوال کے جواب میں عابد صاحب نے کہا، ’’یہ افسانہ میرے سب بچوں اور بچیوں نے پڑھا ہے۔۔۔ میری ایک لڑکی جو فورتھ ائیر میں پڑھتی ہے۔ اس سے کئی بار ’’سیکس‘‘ پر علمی بحث ہو چکی ہے جو اس کے نصاب کا جزو ہے۔‘‘ پھر آپ نے کہا، ’’خاص آدمیوں سے جو کہ ادیب ہیں اس افسانے کے بارے میں میرا تبادلہ خیالات ہوا۔ سب نے اس کو بہت سراہا۔‘‘
صفائی کے دوسرے گواہ مسٹر احمد سعید پروفیسر نفسیات دیال سنگھ کالج، لاہور تھے۔ آپ نے اپنے بیان میں کہا کہ، ’’ افسانہ ’ٹھنڈا گوشت‘ فحش نہیں ہے۔ اس میں ایک بہت بڑا جنسی مسئلہ ہے۔ ان کے نزدیک لفظ فحش کی کوئی بنیاد ہی نہیں۔ دوسرے الفاظ میں فحاشی ایک اضافی چیز ہے۔ ذہنی طور پر بیمار اشخاص پر ’ٹھنڈا گوشت‘پڑھنے سے برا اثر ہو سکتا ہے۔‘‘
تیسرے گواہ ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم ایم اے ایل ایل بی پی ایچ ڈی سابق ڈائریکٹر آف ایجوکیشن کشمیر تھے۔ آپ نے اپنے بیان میں کہا، ’’انسانی نفسیات کے اندر جو خیر و شر ہے، ادیب کا یہ کام ہے کہ وہ اس کو اس انداز سے پیش کرے کہ جس سے انسانی زندگی کے حقائق سمجھنے میں مدد مل سکے۔ برے کردار کو اس انداز سے پیش کرے کہ اس کی برائی دیکھ کر نفرت پیدا ہو۔‘‘ خلیفہ صاحب نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا، زیربحث افسانے کے کردار ایشر سنگھ سے شدید کراہت اور نفرت پیدا ہوتی ہے۔ یہ کردار بالکل صحیح ہے۔ ایسے کرداروں پر خاص کیفیتوں کے ماتحت جسمانی حالت درست ہونے کے باوجود نفسیاتی نامردی طاری ہو سکتی ہے۔
ان تین گواہوں کے بیان ایک پیشی میں ہوئے۔ چونکہ یہ خاصے طویل تھے اور ایک ایک لفظ خود مجسٹریٹ صاحب کو لکھنا پڑتا تھا، اس لئے وہ جھنجھلا جھنجھلا جاتے تھے۔ کئی بار آپ نے تنگ آ کر کہا، ’’میں مجسٹریٹ ہوں یا محرر۔‘‘ لیکن بہرحال انہیں اپنا فرض ادا کرنا ہی پڑتا تھا۔
اس پیشی میں ایک بڑی دلچسپ بات ہوئی۔ میرے ہاتھ میں سگریٹوں کا ڈبہ غالباً کریون اے کا تھا۔ مجسٹریٹ صاحب کی نظر پڑی تو آپ نے مجھے ایک بہت بڑی ڈانٹ پلائی، ’’یہ گھر نہیں ہے۔۔۔ عدالت ہے۔‘‘ میں نے مودبانہ عرض کیا، ’’لیکن حضور میں پی تو نہیں رہا ہوں۔‘‘ آپ نے اور زیادہ گرم ہو کر کہا، ’’خاموش رہو۔ ڈبہ اپنی جیب میں رکھو۔‘‘ میں نے حکم کی تعمیل کی۔۔۔ مجسٹریٹ صاحب درجہ اول نے میز پر سے اپنا سگریٹ ٹن اٹھایا اور ایک سگریٹ سلگا کر پینا شروع کر دیا۔۔۔ اور میں ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا اس کا بکھرا ہوا دھواں پیتا رہا۔
اگلی پیشی پر میاں تصدق حسین خالد تشریف نہ لائے۔ کیونکہ ان کے گھر میں کوئی علیل تھا۔ ہمیں تاریخ مل گئی۔ اس تاریخ پر میاں صاحب موصوف تشریف نہ لائے۔ ان کا لڑکا ولایت سے واپس آ رہا تھا۔ وہ کراچی اس کے استقبال کے لئے چلے گئے تھے۔ ہم سخت الجھن میں گرفتار ہو گئے۔ میں نے مجسٹریٹ صاحب سے مودبانہ گزارش کی کہ ہمیں تاریخ دے دی جائے اس لئے کہ ہمارا وکیل موجود نہیں۔۔۔ آپ نے اس سے انکار کر دیا اور حکم دیا کہ کارروائی شروع ہو۔ میں بہت سٹپٹایا۔ گواہ کو آوازیں دی گئی۔ ڈاکٹر سعید اللہ ایم اے ایل ایل بی، پی ایچ ڈی، ڈی ایس سی (ان دنوں پاکستان ائیرفورس کے سولین آفیسر) تشریف لائے۔ اب میں سوچنے لگا کہ کیا کروں، مگر شاید اس لئے کہ خاندان کے سب بزرگ وکیل اور باپ سب جج تھے۔ دو بڑے بھائی بیرسٹر ہیں اور اس لحاظ سے خون میں کسی قدر قانون گھلا ہوا تھا، میں نے میاں تصدق حسین صاحب خالد کی جگہ سنبھال لی اور اپنے گواہ نمبر ۴ ڈاکٹر سعید اللہ صاحب سے بیان دلوانا شروع کر دیا۔ بات بات پر مجسٹریٹ صاحب مجھے ٹوکتے، ’’تم اس طرح سوال نہیں کر سکتے۔ ۔ تم یہ بات نہیں پوچھ سکتے۔‘‘ میں ڈٹا رہا۔
ڈاکٹر صاحب کا بیان آدھا ختم ہوا تھا کہ عدالت کے کمرے میں چار نوجوان وکیل کالے کوٹ پہنے بڑے چست، بڑے بانکے داخل ہوئے اور ڈاکٹر سعید اللہ صاحب کے پاس کھڑے ہو گئے۔ ایک جس کی پتلی پتلی مونچھیں تھیں اور جس کا رنگ باقی دو کے مقابلے میں کسی قدر سانولا تھا، میرے ساتھ کٹہرے کے ساتھ لگ کر کھڑا ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب مجھے سانس لینے کا موقعہ ملا تو اس نے میرے کان میں کہا، ’’منٹو صاحب کیا ہم آپ کے مقدمے کی پیروی کر سکتے ہیں۔‘‘ میں نے کچھ نہ سوچا اور کہا، ’’جی ہاں آپ کر سکتے ہیں۔‘‘ چنانچہ پتلی پتلی مونچھوں والے اس نوجوان وکیل نے پیروی شروع کر دی۔ مجسٹریٹ صاحب نے اس سے پوچھا، ’’آپ کیسے؟‘‘
وکیل نے مسکرا کر جواب دیا، ’’حضور میں ان کا وکیل ہوں۔ کیوں منٹو صاحب؟‘‘ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ کارروائی شروع ہوئی۔ اس وکیل کے باقی تین ساتھی بھی حصہ لینے لگے۔۔۔ ان کی سرگرمی میں بڑا دلکش لڑکپن تھا۔ وہ جو کالج کے زندہ دل طلبا میں ہوتا ہے۔۔۔ مجسٹریٹ بھنا گئے۔ آپ نے ان تین سے پوچھا، ’’آپ حضرات کیوں بیچ میں بول رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے جواب دیا، ’’حضور ہم ملزموں کے وکیل ہیں۔۔۔ کیوں منٹو صاحب؟‘‘ میں نے پہلے کی طرح اثبات میں سر ہلایا۔
ڈاکٹر سعید اللہ صاحب نے اپنے بیان میں جو کچھ کہا میں اسے مختصراً پیش کرتا ہوں۔۔۔ آپ نے فرمایا، ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ پڑھنے کے بعد میں خود ٹھنڈا گوشت بن گیا۔ پژمردگی اور افسردگی، یہ تھا اس کا اثر۔ یہ افسانہ شہوانی ہیجان ہر گز پیدا نہیں کرتا۔۔۔ ایشر سنگھ کا کردار پیش کرنے کے لئے مصنف نے دو تین دفعہ گالی استعمال کی ہے، مگر شاید فن کار نے اسے مناسب سمجھا ہو، مگر گالی کی شکل اس نے اس طرح بدلی کہ گالی معلوم نہیں ہوتی۔۔۔ اگر وہ گالی جو ایشر سنگھ نے استعمال کی ہے گالی بھی رہتی تو بھی میرے نزدیک افسانہ فحش نہ ہوتا۔ گالی فحش بھی ہو سکتی ہے اور فحش نہیں بھی ہو سکتی۔ اگر فن کار صحیح فنکار ہے تو وہ گالی کو بغیر ضرورت کبھی استعمال نہیں کرتا۔ اس افسانے میں گالی کا استعمال فن کارانہ ہے۔‘‘
پروسی کیوٹر صاحب بڑے نستعلیق قسم کے آدمی تھے۔ بہت بانکے، کج کلاہ۔ گردن میں ہلکا سا شاندار خم۔ آنکھوں پر ’رم لس‘ چشمہ، جسے وہ بار بار اپنی ناک سے اتارتے اور جماتے تھے۔ آپ نے از راہ تمسخر کچھ کہا تو ڈاکٹر صاحب برس پڑے۔ اس زور سے کہ دوسرے کمرے میں صوفی تبسم صاحب کرسی پر اچھل کر باہر نکل آئے۔ بہرحال معاملہ ٹل گیا۔ پروسی کیوٹر صاحب نے جن کا نام غالباً محمد اقبال تھا، ڈاکٹر صاحب سے پوچھا، ’’نفس مضمون کے لحاظ سے مختلف ادبا کو مختلف القاب دیے گئے ہیں۔ مثلاً راشد الخیری کو مصور غم، اقبال کو مصور حقیقت اور خواجہ حسن نظامی کو مصور فطرت۔۔۔ آپ۔۔۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے اقبال صاحب کی بات کاٹ کر کہا، ’’میں ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ کے مصنف کو مصور حیات کا لقب دوں گا۔‘‘
اب کرنل فیض احمد فیضؔ ایڈیٹر پاکستان ٹائمز کی باری آئی۔ آپ نے اپنے بیان میں کہا، ’’میری رائے میں افسانہ فحش نہیں ہے۔ ایک افسانے کے الگ الفاظ کو فحش یا غیر فحش کہنے کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ افسانے پر تنقید کرتے وقت مجموعی طور پر تمام افسانہ زیرنظر ہوگا اور ہونا چاہیئے۔ محض عریانی کسی چیز کے فحش ہونے کی دلیل نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس افسانے کے مصنف نے فحش نگاری نہیں کی لیکن ادب کے اعلیٰ تقاضوں کو بھی پورا نہیں کیا، کیونکہ اس میں زندگی کے بنیادی مسائل کا تسلی بخش تجزیہ نہیں ہے۔‘‘ جرح کے جواب میں فیض صاحب نے کہا، ’’میری بھپیاں لے رہے تھے۔‘‘ اگر موضوع تقاضا کرے تو میں ایسے الفاظ کا استعما ل جائز سمجھتا ہوں۔ ’منہ بھر بھر کے بوسے لئے‘، ’چوس چوس کر اس کا سارا سینہ تھوکوں سے لتھیڑ دیا۔ ‘ یہ الفاظ پارلیمنٹری نہیں لیکن ادبی اعتبار سے جائز ہیں۔‘‘
فیضؔ صاحب کے بعد صوفی غلام مصطفیٰ تبسم صاحب پروفیسر گورنمنٹ کالج، لاہور تشریف لائے۔ آپ نے اپنے بیان میں کہا، ’’افسانہ ’ٹھنڈا گوشت‘ لوگوں کے اخلاق کو خراب نہیں کرتا۔ ہو سکتا ہے اس کے بعض فقرے الگ ہو کر فحش ہوں اور بعض نہ ہوں۔ انسانی جنسیات کو ادب کا موضوع بنا کر ہمارے لٹریچر کا رجحان ایک صحیح سمت کی طرف جا رہا ہے۔‘‘ جرح کا جواب دیتے ہوئے صوفی صاحب نے فرمایا، ’’کوئی افسانہ یا ادب پارہ فحش نہیں ہو سکتا۔ جب تک لکھنے والے کا مقصد ادب نگاری ہے۔ ادب بحیثیت ادب کے کبھی فحش نہیں ہوتا۔‘‘
اقبال صاحب نے اپنی ناک پر سے کئی مرتبہ جلدی جلدی ’رم لس‘ چشمہ اتارا اور جمایا۔ وہ صوفی صاحب کو گھیر گھار کر اپنے مطلب کی بات کہلوانا چاہتے تھے، مگر صوفی صاحب طفل مکتب نہیں تھے۔ بیس برس سے استادی کرتے چلے آئے تھے۔ اقبال صاحب کے جال میں نہ پھنسے۔ ایک مرتبہ تو آپ نے صاف کہہ دیا، ’’دیکھئے صاحب! آپ لاکھ الٹ پھیر کریں لیکن میں وہی کچھ کہوں گا جو مجھے کہنا ہے۔‘‘
اقبال صاحب نے سوال کیا، ’’اگر کسی تحریر، افسانے یا ادب پارے کے نتائج مخرب الاخلاق ہوں مگر مصنف کا مقصد تخریب اخلاق نہ ہو تو آپ اس افسانے کو فحش کہیں گے یا نہیں۔‘‘ صاف ظاہر تھا کہ اقبال صاحب کیا چاہتے ہیں۔ صوفی صاحب نے مسکرا کر جواب دیا، ’’نہیں۔۔۔ ا س لئے کہ پڑھنے والوں کے اپنے ذہنی رجحانات شامل ہوں گے نہ کہ مصنف کا مطلب۔ تخلیق ادب مصنف اپنی طبع سے مجبور ہو کر کرتا ہے۔ یہ تخلیق اوروں کے لئے بھی ہوتی ہے۔‘‘ اقبال صاحب نے ایک اور سوال کیا، ’’اگر اس تصنیف سے لوگوں کے اخلاق پر برا اثر پڑے تو اس کی ذمہ داری ادیب پر ہو گی یا نہیں۔‘‘ صوفی صاحب نے کھٹ سے جواب دیا، ’’وہ بری الذّمہ ہے۔‘‘ اقبال صاحب نے عاجز آ کر پوچھا، ’’آخر مخرب اخلاق تحریر کیا ہے؟‘‘ صوفی صاحب نے جواب دیا، ’’وہ تحریر جس سے لکھنے والے کا مقصد محض تخریبِ اخلاق ہو۔‘‘ اقبال صاحب نے ناک پر اپنا ’رم لس‘ چشمہ جمایا اور گردن کو ذرا اورخمیدہ کر کے جرح بند کر دی۔
ڈاکٹر آئی لطیف ہیڈ آف دی سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ ایف سی کالج، لاہور بلائے گئے۔ میں نے ان کا نام سنا تھا لیکن دیکھا کبھی نہیں تھا۔ آپ صوفی صاحب کے بیان کے دوران میں میاں سعید صاحب کے پاس بیٹھے تھے اور رسالہ ’’جاوید‘‘ کا خاص نمبر ان کے ہاتھ میں تھا۔ میں نے ان کی طرف غور ہی نہیں کیا تھا۔ جب وہ بیان دینے لگے تو میں نے انہیں غور سے دیکھا۔۔۔ کالا رنگ، سب سے پہلے مجھے ان کی تیکھی مونچھیں نظر آئیں۔ آپ نے رسالہ ایک طرف رکھا اور کہنا شروع کیا، ’’میں نے ’ٹھنڈا گوشت‘ ابھی ابھی پڑھا ہے۔ یہ ایک غلط رسالے میں چھپا ہے۔ میرا مطلب ہے یہ افسانہ ایک پوپولر رسالے میں نہیں چھپنا چاہیئے تھا، اگر یہ کسی سائینٹفک رسالے میں کیس ہسٹری کے طور پر مردمی اور نامردی کی تائید یا تردید میں چھپتا تو اس پر فحاشی کا الزام عائد نہیں ہو سکتا تھا۔۔۔ جن الفاظ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ بولنے میں ان کو برا سمجھتا ہوں، لیکن کیس ہسٹری میں یہ الفاظ بڑی اہمیت رکھیں گے۔‘‘
خدا معلوم کیا بات ہوئی کہ ڈاکٹر لطیف نے ایک دم پوچھا، ’’مسٹر منٹو کون ہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’جناب یہ خاکسار ہے۔‘‘ ڈاکٹر صاحب کی تیکھی مونچھیں تھرتھرائیں۔ آپ نے مجھ سے کچھ کہا اور بیان دینے میں مشغول ہو گئے۔ وکیل صاحب نے میرے کان میں کہا، ’’منٹو صاحب آپ کا یہ گواہ تو ہو سٹائل ہو گیا ہے۔ اب آپ اس پر جرح کر سکتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’ہٹایئے۔‘‘ لیکن وکیل صاحب نے جرح کر ہی دی۔ اس کے جواب میں ڈاکٹر لطیف صاحب نے کہا، ’’افسانہ ایسے رسالے میں جس کو ہر بچہ، بوڑھا، لڑکا، لڑکی پڑھ سکے، نہیں چھپنا چاہیئے تھا۔ کیونکہ ایسی طباع جو جذبات کو مشتعل کرنے والے تاثرات قبول کرنے والی ہوں، یہ افسانہ پڑھ کر مشتعل ہوں گی۔‘‘ جرح ختم ہوئی۔ ڈاکٹر لطیف صاحب میرے پاس آئے۔ ہاتھ ملایا اور کہا، ’’آپ نے مجھے گواہی کے لئے بلایا تھا تو کم از کم مل لئے ہوتے۔‘‘ میں نے مسکرا کر جواب دیا۔ انشاء اللہ اب ملاقات کا شرف حاصل کروں گا۔ ڈاکٹر صاحب نے پھر ہاتھ ملایا اور چلے گئے۔
اب میں ان چار نوجوان وکیلوں کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جو بڑے ڈرامائی انداز میں میرے مقدمے میں داخل ہوئے تھے۔ پتلی پتلی مونچھوں، تیکھی ناک اور سانولے رنگ والے شیخ خورشید احمد تھے۔ کافی ہاؤس ان کے بغیر نامکمل ہے۔ دوسرے تین تھے مسٹر مظہر الحق، مسٹر سردار محمد اقبال اور مسٹر اعجاز محمد خان۔ آپ لوگوں کو بار روم میں معلوم ہوا کہ میں خود اپنا کیس کنڈکٹ کر رہا ہوں اور پریشان ہوں تو وہ میری مدد کے لئے چلے آئے۔۔۔ میں نے ان کا شکریہ مناسب و موزوں الفاظ میں ادا کیا۔ شیخ خورشید احمد نے کہا، ’’اس کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔ لیکن داد دیجئے کہ میں نے آپ کا افسانہ ’ٹھنڈا گوشت‘پڑھا کیا دیکھا تک نہیں۔‘‘ ہم سب خوب ہنسے۔۔۔ شیخ نے کہا، ’’اور میں شرط لگانے کے لئے تیار ہوں کہ مسٹر اقبال نے بھی یہ افسانہ ابھی تک نہیں پڑھا۔‘‘
ہماری طرف سے سات گواہ اب تک پیش ہوئے تھے۔ بقایا گواہوں کو بلوانے کے لئے جب شیخ خورشید صاحب نے عدالت سے درخواست کی جو مسترد کر دی گئی۔ مجسٹریٹ صاحب نے اس خیال سے کہ ہمارا پلڑا وزنی ہے، عدالت کی طرف سے چار گواہ طلب کئے۔ مولانا تاجور نجیب آبادی، شورش کاشمیری، ابو سعید بزمی اور ڈاکٹر محمد دین تاثیر۔ کئی تاریخیں بھگتیں مگر یہ حضرات جمع نہ ہوئے۔ آخر ایک تاریخ پر سب آ گئے۔ تاجور صاحب سے علیک سلیک ہوئی تو آپ نے لکچر پلانا شروع کر دیا۔ کہ میں ایسے غلیظ فحش اور واہیات افسانے لکھتا ہوں۔ میں خاموش سنتا رہا، ا س لئے کہ مولانا کے ساتھ بحث کرنا فضول تھا۔
آغا شورش بڑے پرشور طریقے پر ملے۔ ابو سعید بزمی نے مجھ سے ایک سگریٹ لیا اور سلگا کر ٹہلنے لگے۔ آواز پڑی تو حاضر عدالت ہوئے۔ کارروائی شروع ہوئی۔ پہلے گواہ منجانب عدالت شمس العلماء مولانا احسان اللہ خان تاجور نجیب آبادی پروفیسر دیال سنگھ کالج لاہور تھے۔ آپ نے فرمایا، ’’ٹھنڈا گوشت کسی مسجد میں یا کسی مجلس میں جماعتی حیثیت میں سننا پسند نہیں کیا جا سکتا، اگر کوئی پڑھے تو اپنا سر سلامت لے کر نہ جا سکے۔ چالیس سالہ ادبی زندگی میں ایسا ذلیل اور گندہ مضمون میری نظر سے نہیں گزرا۔‘‘ میں نے مولانا سے چند سوال کئے تو آپ نے جواباً کہا، ’’یہ افسانہ میں نے پہلی بار دیال سنگھ کالج میں پڑھا لیکن پورا نہیں پڑھا۔ تھوڑا سا پڑھا اور لغو سمجھ کر بند کر دیا۔۔۔ مثنوی گلزار نسیم میں بکاؤلی اور تاج الملوک کی شادی کا تذکرہ اخلاق سے متصادم ہے۔۔۔ فسانہ عجائب، مثنوی بہار عشق، مثنوی فریب عشق اور الف لیلیٰ میں جو فحش حصے ہیں وہ فحش ہیں۔ حکایت خانم وکنیز کا ذکر مثنوی مولانا روم میں آتا ہے لیکن میں نے نہیں پڑھا۔۔۔ جنسی ترغیب کا پہلو مثنوی مولانا روم میں نہیں ہو سکتا۔‘‘
جی چاہتا تھا کہ مولانا کو خوب ستاؤں مگر میں نے مناسب خیال نہ کیا اور چند سوال اور کر کے ان کو چھوڑ دیا۔۔۔ اب آغا شورش کاشمیری ولد آغا نظام الدین ایڈیٹر ہفتہ وار ’’چٹان‘‘ مونچھوں کے اندر مسکراہٹیں بکھیرتے تشریف لائے۔ میری طرف دیکھ کر آپ کھل کر مسکرائے اور بیان دینا شروع کر دیا۔ آپ نے فرمایا، ’’جہاں تک میرے علم اور احساسات کا تعلق ہے میں نے ’ٹھنڈا گوشت‘ سے اچھے تاثرات فراہم نہیں کئے۔ جس سماج اور گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں اس کے پیش نظر میں ایسا مضمون اپنے پرچے میں شائع نہیں کروں گا۔ میرا مدرسہ فکر اسے گوارا نہیں کرتا۔‘‘
استغاثے کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے آغا صاحب نے کہا، ’’اس سے اوباش قاری کو ترغیب ہوتی ہے، ان لوگوں کو جن کا رجحان طبیعت خاص طور پر بدکاری کی طرف مائل ہو۔‘‘ ہماری طرف سے آغا صاحب پر کوئی جرح نہ کی گئی۔۔۔ ابو سعید بزمی ایڈیٹر احسان لاہور پیش ہوئے تو آپ نے افسانے کو مخرب اخلاق قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’افسانہ معنی و مطلب کی وجہ سے قابلِ اعتراض ہے۔‘‘ میں نے بزمی سے پوچھا، ’’کیوں حضرت! یہ بتایئے کیا اسی عدالت میں آپ کے خلاف ازالہ حیثیت عرفی کا مقدمہ چل رہا ہے؟‘‘ آپ نے جب ’’جی ہاں‘‘ کہا تو مجسٹریٹ صاحب نے حیرت سے پوچھا، ’’میری عدالت میں؟‘‘ بزمی صاحب نے پھر جواب دیا، ’’جی ہاں!‘‘ مجسٹریٹ صاحب نے قلم سے سر کھجا کر پائپ سلگایا اور اپنے کام میں مشغول ہو گئے۔
آخری گواہ منجانب عدالت پیش ہوئے یعنی ڈاکٹر تاثیر صاحب پرنسپل اسلامیہ کالج، لاہور۔ آپ نے اپنے بیان میں کہا، ’’کہانی ادبی لحاظ سے ناقص ہے لیکن ہے ادبی، نشان لگائے ہوئے الفاظ کچھ اس کہانی کے لئے ضروری ہیں کچھ غیر ضروری۔ کچھ الفاظ ایسے ہیں جن کو ناشائستہ کہا جا سکتا ہے لیکن میں فحش اس لئے نہیں کہتا کہ لفظ فحش کی تعریف کے متعلق میں واضح نہیں ہوں۔۔۔ میرے خیال میں جن لوگوں کا میلان بدکاری کی طرف ہے ان کے لئے اس مضمون سے جنسی کراہت ہوگی، جنسی ترغیب نہیں ہوگی۔ ’ٹھنڈا گوشت‘ کا مطلب مردہ لڑکی ہے۔ میں اس کہانی کو ایک عام جنسی کہانی سمجھتا ہوں۔ یہ جنسی اخلاق خراب نہیں کرتی۔‘‘
عدالت کی تمام کارروائی ختم ہوئی۔ اب فیصلہ باقی تھا جو میاں اے ایم سعید صاحب سماعت کے دوران میں کئی مرتبہ زبانی سنا چکے تھے۔ شیخ خورشید احمد کو یقین تھا کہ ہم سب کو جرمانہ ہوگا۔۔۔ فیصلے کی تاریخ سولہ جنوری (یہی سال) مقرر ہوئی۔ نصیر انور بالکل بے پروا تھا۔ ساری سماعت کے دوران میں وہ ہنستا مسکراتا رہا۔ عارف عبد المتین البتہ سارا وقت بہت پریشان رہے۔ ان کی اس پریشانی کا باعث یہ بھی تھا کہ ان کے معمر والد بڑے ہراساں تھے۔ جب صفائی کی گواہیاں ختم ہوئی تھیں تو میں نے اپنا تحریری بیان داخل کیا تھا۔ اس کو پڑھ کر مجھے اچھی طرح یاد ہے، مجسٹریٹ صاحب نے فرمایا تھا، ’’یہ بیان ہی ملزم کو سزا دینے کے لئے کافی ہے۔‘‘
یہ بیان حسب ذیل ہے، میں افسانہ ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ مطبوعہ ماہنامہ ’’جاوید‘‘ لاہور کا مصنف ہوں جو استغاثے کے نزدیک عریاں اور فحش ہے۔ مجھے اس سے اختلاف ہے۔ یہ افسانہ کسی بھی نکتہ نظر سے ایسا نہیں ہے۔ فحاشی کے متعلق بہت کچھ کہا جا چکا ہے اور کہا جا سکتا ہے، مگر یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ ’’ادب‘‘ ہرگز ہرگز فحش نہیں ہو سکتا۔ افسانہ ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ کو اگر ادب کے دائرے سے باہر کر دیا جائے تو اس کے فحش ہونے یا نہ ہونے کا سوال پیدا ہو سکتا ہے، مگر یہ افسانہ ایک ادیب کی تصنیف ہے جو ادب جدید میں کافی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کا ثبوت اس کی تصانیف ہیں اور وہ مضامین ہیں جو قریب قریب ہر ادبی رسالے میں اس کے فن پر شائع ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے تین مرتبہ چند افسانوں کے بارے میں شبہ ہوا تھا کہ وہ فحش ہیں۔ چنانچہ مجھ پر مقدمے چلے۔ سزائیں ہوئیں، لیکن اپیل کرنے پر ہر بار سیشن کورٹ میں مجھے اور میرے افسانوں کو فحاشی کے الزام سے بری کیا گیا۔
میرے ایک مقدمے کے سلسلے میں مسٹر ایم آر بھاٹیہ ایڈیشنل سیشن جج کے فیصلے کے یہ الفاظ قابل غور ہیں، ’’قابل غور امر ہے کہ ایسے اشخاص ملزمین کی صفائی میں پیش ہوئے ہیں جو اردو زبان کے عالم ہونے کی حیثیت میں بہت مشہور ہیں۔ مثال کے طور پر خان بہادر عبدالرحمن چغتائی، مسٹر کے ایل کپور پروفیسر ڈی اے وی کالج، راجندر سنگھ بیدی اور ڈاکٹر آئی لطیف پروفیسر ایف سی کالج جو بطور گواہان صفائی پیش ہوئے۔ ان سب کی رائے ہے کہ مضمون (بو) میں ایسی کوئی چیز نہیں جو شہوانی حسیات پیدا کرے بلکہ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ مضمون ترقی پسند ہے اور اردو ادب کے موڈرن رجحان سے تعلق رکھتا ہے۔ حتیٰ کہ استغاثے کے گواہ نمبر چار بشیر نے دوران جرح میں تسلیم کیا کہ مضمون انسان کے اخلاق پر برا اثر نہیں ڈالتا۔
ماتحت عدالت فاضلہ نے ہندوستانی نوجوان کی تعیش پسند زندگی کا ذکر کرتے ہوئے افسوس کیا ہے کہ اس بات پر ماتم کیا ہے کہ ملک میں ہندوستانیوں کا پرانا کیریکٹر نابود ہو رہا ہے (ماتحت عدالت کے فاضل جج) نے وہ خوبیاں بھی یاد کرائی ہیں۔ جن کے لئے ہم ہندوستانی کبھی مشہور تھے اور نصیحت کی ہے کہ نئے فیشنوں کو ختم کر دینا چاہیئے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ماتحت عدالت فاضلہ کے خیالات ترقی پسند نہیں ہیں۔۔۔ ہمیں زمانے کے ساتھ ساتھ چلنا ہے۔۔۔ حسین چیز ایک دائمی مسرت ہے۔ آرٹ جہاں بھی ملے ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیئے آرٹ خواہ وہ تصویر کی صورت میں ہو یا مجسمے کی شکل میں۔ سوسائٹی کے لئے قطعی طور پر ایک پیش کش ہے۔ چاہے اس کا موضوع غیر مستوری کیوں نہ ہو۔ یہی کلیہ تحریروں پر بھی منطبق ہوتا ہے۔
جب ملک کے مشہور و معروف آرٹسٹوں اور ادیبوں نے ملزمین کے حق میں کہا ہے۔ سارا فیصلہ یہیں ہو جاتا ہے۔ زیربحث مضمون ایسا نہیں کہ جس پر کسی قانونی عدالت میں نکتہ چینی کی جائے۔ اس لئے مجھے اپیل منظور کرنے میں کوئی پس و پیش نہیں۔ جرمانہ اگر ادا کیا گیا ہے تو واپس کیا جائے۔ میں اپیل کرنے والوں کو بری کرتا ہوں۔‘‘
اس فیصلے سے یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ آرٹ فحش نہیں ہو سکتا ہے اور کسی فن پارے پر کسی قانونی عدالت میں نکتہ چینی نہیں کی جانی چا ہیئے۔ کوئی لٹریری پیس یعنی ادب پارہ معیاری یا غیر معیاری ہو سکتا ہے۔ ا س لئے کہ آرٹسٹ ہو سکتا ہے اپنا معیار قائم نہ رکھ سکے۔ افسانہ نگار کا ہر افسانہ اس کا شاہکار نہیں ہو سکتا۔ ’ٹھنڈا گوشت‘ کے اسٹینڈرڈ کے بارے میں کہا سنا جا سکتا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ افسانہ میرے دوسرے افسانوں کے پائے کا نہیں۔ یہ کام ادبی نقادوں کا ہے اور انہیں اس بات کا حق ہے کہ وہ جانچیں، پرکھیں، مگر اس افسانے پر کسی صورت میں بھی فحاشی کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ ا س لئے کہ مصنف کی طرف سے افسانوی ادب میں اچھا برا جیسا بھی ہے یہ ایک اضافہ ہے، لیکن اس صورت میں کہ مجھے اپنی پوزیشن صاف کرنا ہے۔ آیئے ہم اس افسانے کو اچھی طرح جانچیں کہ اس میں فحاشی کا کوئی پہلو نکلتا ہے یا نہیں۔
افسانہ ’ٹھنڈا گوشت‘ جیسا کہ ظاہر ہے کہ ایک افسانہ ہے جس کا عقبی منظر یوں تو گزشتہ فسادات ہیں، لیکن دراصل جس کی بنیاد انسانی نفسیات پر قائم ہے اور انسانی نفسیات کا ’’جنس‘‘ سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ افسانے میں دو کردار ہیں۔ ایشر سنگھ اور اس کی داشتہ یا بیوی کلونت کور کا۔ دونوں ٹھیٹ قسم کے گنوار سکھ ہیں۔ دونوں جنسی لحاظ سے بہت تگڑے ہیں۔ یوں کہنا چاہیئے کہ ایشر سنگھ کو جنسی تشفی صرف کلونت کور ایسی عورت ہی سے اور کلونت کور کو جنسی تشفی صرف ایشر سنگھ ایسے مضبوط اور توانا مرد ہی سے مل سکتی تھی۔ دونوں کی جنسی زندگی بڑی ہموار تھی، لیکن ایک ایسا وقت آیا ہے جب کلونت کور محسوس کرتی ہے کہ ایشر سنگھ تبدیل ہو گیا ہے۔ اس کی جنسی محبت میں پہلی سی توانائی نہیں رہی۔ وہ اس سے بے رخی برت رہا ہے۔ کسی اور عورت سے اس نے ناطہ جوڑ لیا ہے۔
اصل بات یہ تھی کہ سردار ایشر سنگھ ایک زبردست نفسیاتی رد عمل کا شکار تھا۔ جس کے باعث اس کی جنسی توانائی قریب قریب مفلوج ہو چکی تھی۔ وہ لوٹ مار کے دوران میں قتل و غارت کرنے کے بعد ایک نوجوان مسلم دوشیزہ اٹھا لایا تھا کہ تبدیلی کے طور پر وہ اس سے جنسی حظ اٹھائے، مگر جب اس نے ایسا کرنا چاہا تو اسے معلوم ہوا کہ لڑکی دہشت کے مارے اس کے کندھوں پر ہی مر چکی تھی اور اس کے سامنے ایک ٹھنڈی لاش پڑی تھی۔ اس کی تپی ہوئی شہوانی خواہشات کے سامنے ٹھنڈے گوشت کا لوتھڑا۔ اس کا ایشر سنگھ کو کچھ ایسا زبردست احساس ہوا کہ نفسیاتی طور پرنامرد ہو گیا۔
اگر ایشر سنگھ کو ٹھنڈی عورتوں سے سابقہ پڑا ہوتا، اگر ایشر سنگھ خود ٹھنڈا مرد ہوتا تو اتنا زبردست نفسیاتی ردعمل نہ ہوتا، مگر جیسا کہ اس کا کردار پینٹ کیا گیا ہے، وہ جنسی لحاظ سے بہت ہی توانا تھا اور اس کا جنسی رشتہ ایک ایسی عورت سے تھا جو ہر لحاظ سے اس کا ہم پایہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اوپر بیان کئے گئے حادثے نے اسے جنسی لحاظ سے بالکل نکما کر دیا۔ یہ بات یہاں قابل غور ہے کہ قتل و غارت نے اور لوٹ مارنے ایشر سنگھ پر کوئی اثر نہیں کیا تھا۔ اس نے کئی انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا مگر اس کے ضمیر پر احساس کی ایک ہلکی سی خراش بھی نہ آئی تھی، لیکن جب وہ لڑکی کی ٹھنڈی لاش پر جھکا تو اس کی مردانگی غائب ہو گئی۔
افسانہ’ٹھنڈا گوشت‘ کے بطن میں جو کچھ بھی ہے، ظاہر ہے کہ فحش نہیں۔ عنوان ہی ایک بین ثبوت ہے کہ افسانہ پڑھنے والوں کے دل و دماغ میں شہوت کی گرم لہریں نہیں دوڑائے گا۔ جو حادثہ ایشر سنگھ کو پیش آیا وہ کیسے کسی قاری کی شہوانی جذبات کی طرف مائل کر سکتا ہے۔ ایشر سنگھ کا اندازِ گفتگو اس کا اپنا ہے۔ ہزاروں آدمی عام روزمرہ کی زندگی میں وہ الفاظ استعمال کرتے ہیں جو مصنف نے اس کے منہ سے کہلوائے ہیں۔ اس کی حرکات غیر فطری نہیں۔ اسی طرح کلونت کور کے متعلق کہا جا سکتا ہے۔ استغاثے کے فاضل وکیل نے خاص طور پر اس بات پر زور دیا ہے کہ ایشر سنگھ کے مکالموں میں گالیاں استعمال کی گئی ہیں۔ میں یہاں گالی کی نفسیات پر بحث نہیں کروں گا، مگر یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ وہ الفاظ جو استغاثے کے وکیل کے نزدیک گالی ہیں اصل میں گالی نہیں ہیں۔ میں یہاں گالی کی ایک دو مثالیں پیش کرتا ہوں۔ اردو کے مشہور شاعر مرزا غالب، مرزا شہاب الدین خان صاحب کے نام ایک رقعے میں لکھتے ہیں،
’’یہ اشعار جو تم نے بھیجے ہیں۔ خدا جانے کس ولدالزنا نے داخل کر دیے ہیں۔۔۔ اگر یہ شعر متن میں پائے بھی جاویں تو یوں سمجھنا کسی ملعون زن جلب نے اصل کلام کو چھیل کر یہ خرافات لکھ دیے ہیں۔‘‘ (اردوئے معلی صفحہ ۲۱۷)
مرزا شہاب الدین کے نام ایک اور خط میں ارشاد ہوتا ہے، ’’میاں وہ قاضی مسخرہ تو چوتیا ہے۔‘‘ (اردوئے معلی صفحہ ۳۱۸)
گالی کے یہ نمونے تو ہوگئے، لیکن اگر کوئی شخص گفتگو کے دوران میں یہ کہے، ’’میں بھی عجیب چوتیا ہوں کہ آپ یہاں اور میں آپ کو لاہور ڈھونڈتا پھرا۔‘‘ تو ظاہر ہے لفظ ’’چوتیا‘‘ گالی نہیں۔ ’’سالا‘‘ ہمارے یہاں بہت بڑی گالی متصور کی جاتی ہے۔ لیکن بمبئی میں لفظ ’’سالا‘‘ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ عام گفتگو میں آپ کو وہاں ایسے کئی فقرے سننے میں آئیں گے۔
’’ہمارا باپ سالا بڑا اچھا آدمی ہے۔‘‘
’’سالا ہم سے مشٹیک ہو گیا۔‘‘
’’سالا کیسی بات کرتا ہے۔‘‘
ماں بہن کی گالی یو پی اور پنجاب میں گفتگو میں عام استعمال ہوتی ہے اور کسی کے کان کھڑے نہیں ہوتے۔ خاص گالی اکثر لوگوں کا تکیہ کلام بن جاتی ہے۔ ایشر سنگھ بھی چند گالیوں کو تکیہ کلام کے طور پر ہی استعمال کرتا ہے۔ ا س لئے استغاثے کے فاضل وکیل کا اس نکتے پر زور دینا بالکل بیکار ہے۔ اس کے علاوہ یہ اہم بات بھی پیش نظر رہنی چاہیئے کہ ایشر سنگھ جیسے اجڈ اور گنوار آدمی سے شائستہ کلامی کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔ اس کے منہ میں اگر مصنف نے مہذب اور شائستہ الفاظ ڈالے ہوتے تو افسانے میں حقیقت نگاری کا خاتمہ ہو جاتا۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ افسانہ ایک بہت ہی بھونڈی شکل اختیار کر لیتااور آرٹ کی سطح سے بہت ہی نیچے خرافات کے کھڈ میں جا گرتا۔
سوال ہے۔۔۔ جو چیز جیسی ہے اسے من و عن کیوں نہ پیش کیا جائے۔ ٹاٹ کو اطلس کیوں بنایا جائے۔ غلاظت کے ڈھیر کو عود و عنبر کے انبار میں کیوں تبدیل کیا جائے۔۔۔ حقیقت سے انحراف کیا ہمیں بہتر انسان بننے میں ممد و معاون ہو سکتا ہے۔۔۔ ہر گز نہیں۔۔۔ پھر ایشر سنگھ کے کردار اور اس کی گفتار پر اعتراض کیا معنی رکھتا ہے۔ ایشر سنگھ گندہ ذہن سہی، افسانے کا موضوع گھناؤنا سہی، لیکن کیا اس کو پڑھنے کے بعد ہمیں انسانیت کی وہ رمق دکھائی نہیں دیتی جو ایشر سنگھ کے سیاہ قلب میں خود اس کا مکروہ فعل پیدا کرتا ہے اور یہ ایک صحت مند چیز ہے کہ اس افسانے کا مصنف انسانوں اور انسانیت سے مایوس نہیں ہوا۔ اگر مصنف نے ایشر سنگھ کے دل و دماغ پر نفسیاتی ردعمل پیدا نہ کیا ہوتا تو یقیناً ’ٹھنڈا گوشت‘ ایک نہایت ہی مہمل چیز ہوتی۔
مجھے افسوس ہے کہ وہ تحریر جو انسانوں کو بتاتی ہے کہ وہ انسان سے حیوان بن کر بھی انسانیت سے علیحدہ نہیں ہو سکتے۔ فحش اور شہوات کو ابھارنے والی سمجھی جا رہی ہے اور یہ لطیفہ ہے کہ افسانے میں ایک انسان کو اس کی رہی سہی انسانیت ایک بہت بڑی سزا دیتی ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ ایشر سنگھ کو اپنی چری ہوئی گردن کا بالکل احساس نہیں تھا، اس کو آخری سانس تک صرف ایک ہی بات ستاتی رہی۔۔۔ کہ وہ ایک ٹھنڈی لاش سے زنا کرنے والا تھا۔
فرانس میں مشہور ناول نگار فلابئیر کی تصنیف ’مادام بوواری‘ پر فحاشی کے الزام میں مقدمہ چلا تو وکیل صفائی موسیوسینار نے فاضلانہ بحث کے دوران میں کہا، ’’حضرات! یہ کتاب جو بقول وکیل استغاثہ شہوانی جذبات کو بھڑکاتی ہے۔ موسیو فلابئیر کے وسیع مطالعے اور غوروفکر کا نتیجہ ہے۔ اس نے اپنی توجہ متین فطرت کی وساطت سے ایسے ہی متین اور ملول مضامین کی طرف منعطف کی ہے۔ وہ ایسا آدمی نہیں جس کے خلاف وکیل استغاثہ نے ہیجان خیز تصویروں کی نقاشی کے الزام میں جگہ جگہ اپنی تقریر میں زہر اگلا ہے۔۔۔ میں پھر دہراتا ہوں کہ فلابیر کی فطرت میں بے انتہا سنگینی، شدید سنجیدگی اور بے پناہ ملال بھرا پڑا ہے۔‘‘
میں اپنے متعلق صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ میں ایک شریف خاندان کا فرد ہوں۔ اتفاق سے میرا پیشہ تصنیف و تالیف ہے۔ اپنی فطرت اور جو تعلیم و تربیت مجھے ملی ہے اس کی بدولت میں نے آج تک سستا اور سوقیانہ ادب پیش نہیں کیا۔ اردو کے جدید ادب سے جو ذرا سا بھی واسطہ رکھتے ہیں، ان کو میرے ادبی مقام کا علم ہے۔ افسانہ ’ٹھنڈا گوشت‘میں فلابئیر کی فطرت کی بے انتہا سنگینی اور شدید سنجیدگی شاید نہ ہو لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ بے پناہ ملال سے بھرا پڑا ہے اور جب سوال ملال کا ہو تو شہوت کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔
اب افسانے کے اس پہلو سے بھی دیکھا جائے کہ مصنف کی نیت کیا ہے۔ رائے صاحب لالہ سنت رام کی عدالت میں اپنے افسانے ’’دھواں‘‘ کے سلسلے میں صفائی کا بیان دیتے ہوئے میں نے کہا تھا، ’’تحریر و تقریر میں، شعر و شاعری میں، سنگ سازی و صنم تراشی میں فحاشی تلاش کرنے کے لئے سب سے پہلے اس کی ترغیب ٹٹولنی چاہیئے، اگر یہ ترغیب موجود ہے، اگر اس کا ایک شائبہ بھی نظر آ رہا ہے تو وہ تحریر، وہ تقریر، وہ شعر وہ بت قطعی طور پر فحش ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ ایسی کوئی ترغیب زیربحث افسانے میں نہیں۔ میں افسانے کا تجزیہ اوپر کر چکا ہوں جو یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ مصنف کی نیت میں کوئی فرق نہیں تھا اور اس نے محض ایک نفسیاتی حقیقت کو اس کے صحیح روپ میں افسانے کی صورت میں پیش کیا ہے۔
افسانہ ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ پڑھ کر اگر کسی صاحب کے جذبات برانگیختہ ہوں تو انہیں کسی ذہنی معالج سے رجوع کرنا چا ہیئے۔ افسانہ ’’دھواں‘‘ ہی کی صفائی کے سلسلے میں، میں نے اپنے بیان میں کہا تھا، ’’ایک مریض جسم، ایک بیمار ذہن ہی ایسا غلط اثر لے سکتا ہے۔ جو لوگ روحانی، ذہنی اور جسمانی لحاظ سے تندرست ہیں، اصل میں انہیں کے لئے شاعر شعر کہتا ہے، افسانہ نگار افسانہ لکھتا ہے اور مصور تصویر بناتا ہے۔ میرے افسانے تندرست اور صحت مند لوگوں کے لئے ہیں۔ نورمل انسانوں کے لئے، جو عورت کے سینے کو عورت کا سینہ ہی سمجھتے ہیں اور اس سے زیادہ آگے نہیں بڑھتے۔ جو عورت اور مرد کے رشتے کو استعجاب کی نظر سے نہیں دیکھتے۔‘‘ افسانہ ’ٹھنڈا گوشت‘ بھی دوسرے ادب پاروں کی طرح صحت مند دماغوں کے لئے ہے۔ ایسے دماغوں کے لئے نہیں ہے، جو معصوم اور پاکیزہ چیزوں میں بھی شہوت کرید لیتے ہیں۔
اگر کوئی عورت لوہے کی مشین کی حرکت سے شہوانی لذت حاصل کر لیتی ہے تو کیا اس لوہے کی مشین یا اس کی حرکت پر سفلی جذبات برانگیختہ کرنے کا الزام دھرا جائے گا۔۔۔ دنیا میں تو ایسے اشخاص بھی موجود ہیں جو مقدس کتابوں سے بھی شہوانی لذت حاصل کرلیتے ہیں، مگر ایسے لوگوں کا علاج ہونا چاہیئے۔
امریکہ میں مشہور مصنف جیمز جوئیس کی تصنیف ’یولی سیز‘ کو فحاشی سے بری کرتے ہوئے جج وولزے نے اپنے فیصلے میں لکھا، ’’ایک خاص کتاب ایسے جذبات اور خیالات پیدا کر سکتی ہے یا نہیں۔ اس کا فیصلہ عدالت کی رائے کے ذریعے یہ دیکھ کر ہوگا کہ اوسط درجے کے جنسی جبلتیں رکھنے والے آدمی پر اس کا کیا اثر ہوتا ہے۔ ایسے آدمی پر جسے فرانسیسی ’معمولی قسم کی حسیات رکھنے والا انسان‘ کہتے ہیں اور جس کی حیثیت قانون تفتیش کی اس شاخ میں ایک فرضی عامل کی ہوتی ہے جیسے عدالت خفیفہ کے مقدموں میں ’سمجھ بوجھ والے آدمی‘ کی حیثیت ہوتی ہے، یا رجسٹری کے قانون میں ایجاد کے مسئلے کے متعلق ’فن کے ماہر‘ کی۔‘‘ قانون کا تعلق صرف اوسط درجے کے آدمی سے ہے، چنانچہ افسانہ ’ٹھنڈا گوشت‘ کےمتعلق کوئی فیصلہ مرتب کرنے سے پہلے یہ دیکھنا چاہیئے کہ اس کے مطالعے سے ایک اوسط درجے کی جنسی جبلتیں رکھنے والے آدمی کے دل و دماغ پر کیا اثر ہوتا ہے۔
مشہور امریکی ناول نگار ارسکائن کیلڈول کی تصنیف ’’گوڈز لٹل ایکٹر‘‘ کو فحاشی کے الزام سے بری کرتے ہوئے عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا، ’’مصنف کا مقصد ایک سچی تصویر پینٹ کرنا تھا۔ ایسی تصویروں میں بعض ضروری تفصیلوں کا آ جانا لابدی امر ہے اور چونکہ ایسی تفصیلوں کا گہرا تعلق زندگی کے جنسی پہلو سے ہوتا ہے، اس لئے انہیں بہیمانہ صاف گوئی کے ساتھ بیان کر دیا جاتا ہے۔ اس لئے عدالت یہ حکم صادر نہیں کر سکتی کہ ایسی تصویریں سرے سے بنائی ہی نہ جائیں۔۔۔ کرداروں کی زبان بلاشبہ بھدی اور گندی ہے، مگر عدالت مصنف سے ان پڑھ اور غیر مہذب لوگوں کے منہ میں شائستہ زبان ڈال دینے کا مطالبہ بھی نہیں کر سکتی۔‘‘
افسانہ ’ٹھنڈا گوشت‘ ایک سچی تصویر ہے۔ اس میں کوئی ابہام نہیں۔ بڑی ہی بہیمانہ صاف گوئی سے اس میں ایک نفسیاتی حقیقت کی نقاب کشائی کی گئی ہے، اگر اس میں کہیں گندگی اور غلاظت ہے تو اسے مصنف کے ساتھ نہیں بلکہ افسانے کے کرداروں کی ذہنی سطح کے ساتھ منسوب کرنا چاہیئے۔ کسی تحریر کے چند الفاظ اگر چمٹے سے اٹھا کر لوگوں کو دکھائے جائیں کہ فحش ہیں تو اس سے کوئی صحیح اندازہ نہیں ہوگا۔۔۔ ان الفاظ کی جداگانہ اشاعت قابل گرفت ہو سکتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے غالب، میر، ارسٹوفین، چاسر، بوکشیو، بلکہ کتاب مقدس تک کے بعض مقامات کو قابل تعزیر گردانا جا سکتا ہے۔ تاہم کسی تحریر کو سمجھنے کے لئے اسے مجموعی طور ہی سے دیکھنا پڑے گا۔
مجھے آخر میں یہ کہنے کی اجازت دی جائے کہ مجھے انتہائی افسوس ہے کہ استغاثے کی طرف سے میری تصنیف ’ٹھنڈا گوشت‘ پر کوئی ادبی تنقید نہیں ہوئی، اگر ایسا ہوتا تو مجھے دلی مسرت ہوتی۔ افسانے میں اگر کوئی فنی کمزوری رہ گئی تھی، بیان میں اگر کوئی سقم تھا، انشاء میں اگر کوئی خامی تھی تو مجھے اس کا علم ہو جاتا اور میں کچھ حاصل کرتا۔ لیکن میں یہاں ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا ہوں اور ایک نہایت ہی گھناؤنے الزام کا منہ دیکھ رہا ہوں کہ میں نے اپنی تصنیف کے ذریعے سے لوگوں کے شہوانی جذبات ابھارے ہیں۔۔۔ اس کے خلاف میرے دل سے احتجاج کے سوا اور کیا چیز نکل سکتی ہے۔ حیرت ہے کہ ’ٹھنڈا گوشت‘ پڑھ کر قاری کا ذہن خوف و نفرت میں ملفوف ہونے کے بجائے شہوت سے ملوث کیسے ہو سکتا ہے۔ اور بھی حیرت ہے کہ ایشر سنگھ کو جو ہولناک سزا ملی وہ پڑھنے والے کے دل و دماغ میں شہوانی جذبات کیسے بیدار کر سکتی ہے۔
سولہ جنوری آن پہنچی۔ شیخ سلیم بہت پریشان تھا۔ اس پریشانی کے باعث اس نے زیادہ پینا شروع کر دی۔ نصیر انور حسب معمول بے پروا تھا۔ عزیزی عارف عبد المتین کا حلق پہلے سے زیادہ خشک ہو گیا تھا۔ سولہ جنوری کی صبح کو پانچ سو روپے جیب میں ڈال کر میں ضلع کچہری روانہ ہوا۔ شیخ سلیم پہلے ہی سے وہاں موجود تھا۔ صبح سے پی رہا تھا۔ بوتل پتلون کی جیب میں تھی۔ خود بہت مضطرب تھا، لیکن بار بار مجھے تسلی دیتا تھا، ’’بھائی جان، فکر کی کوئی بات نہیں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ میں یہ سن کر مسکرا دیتا۔ اتنے میں نصیر انور اور عارف عبدالمتین بھی آ گئے۔ عارف نے مجھ سے بڑے تشویش بھرے لہجے میں پوچھا، ’’منٹو صاحب! آپ کا کیا خیال ہے۔ کیا ہوگا؟‘‘ میں نے جواب دیا، ’’وہی ہوگا جو منظور خدا ہوگا۔‘‘
مجسٹریٹ صاحب آ چکے تھے مگر فیصلہ سنانے کے آثار دکھائی نہیں دیتے تھے۔ گیارہ بج گئے۔ بارہ بج گئے۔ پانی پی پی کر ہمارے پیٹ اپھر گئے، مگر آواز نہ پڑی۔ اتنے میں میرے ایک مخبر نے مجھے بتایا کہ فیصلہ تیار ہے، مگر میاں اے ایم سعید اس میں شاید کچھ ترمیم کرنا چاہتے ہیں۔ ۔ تھوڑی دیر کے بعد پتا چلا کہ میاں صاحب غائب ہیں۔ یعنی اپنے کمرے میں موجود نہیں اور یہ کہ انہوں نے صبح سے کسی مقدمے کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ ایک صاحب نے یہ کہا کہ وہ بہت پریشان ہیں۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ تھوڑی دیر کے بعد مخبر پکی خبر لایا۔ ایک طرف لے جا کر اس نے مجھ سے سرگوشی میں کہا، ’’میں فیصلہ دیکھ آیا ہوں۔۔۔ جلدی جلدی میں دیکھا ہے۔ صرف چند آخری سطریں۔ آپ کو یقیناً سزا ہوگی اور جرمانہ بھی۔۔۔ آپ کے نام کے آگے یہ لکھا تھا۔۔۔ And Sentence him to undergo اس کے آگے جگہ خالی تھی۔ دوسرے ملزموں کو صرف جرمانہ ہوگا۔ میں جاتا ہوں اور ضامن کا بندوبست کرتا ہوں۔‘‘
میں سوچنے لگا۔ سزا کتنی ہوگی۔ ایک ماہ کی، دو ماہ کی یا چند دنوں کی؟ میں نے کسی سے بات نہ کی، البتہ شیخ خورشید صاحب کو سب کچھ بتا دیا۔ آپ نے فوراً ضمانت کے کاغذ تیار کر لئے اور مجھ سے کہا، ’’گھبرایئے نہیں منٹو صاحب! سزا زیادہ سے زیادہ دس بارہ یوم کی ہوگی۔‘‘ لیکن پھر کچھ سوچ کر تشویش ناک لہجے میں کہا، ’’لیکن ایسا نہ ہو ضمانت لینے سے انکار کردے۔‘‘ یہ سن کر مجھے بہت تشویش ہوئی کیونکہ مجسٹریٹ صاحب کا رویہ شروع ہی سے مخاصمانہ رہا تھا، لیکن کچھ کہا بھی تو نہیں جا سکتا تھا۔ خاموش دل ہی دل میں پیچ و تاب کھاتا رہا۔ آخر مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے شیخ سلیم کو ساری بات بتا دی۔ میرے جی کا بوجھ تو کسی قدر ہلکا ہو گیا، مگر شیخ بیچارہ اور زیادہ مضطرب ہو گیا، لیکن تسلی دینے کی خاطر مجھ سے کہا، ’’کچھ فکر نہ کرو بھائی جان۔۔۔ میں ٹیکسی لے کر وہاں جیل میں پہنچوں گا۔۔۔ روپیہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ آپ کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ میں ایسے معاملے نبیڑناجانتا ہوں۔۔۔ میرا خیال ہے آپ اس وقت ایک بڑا پیگ لگا لیجئے۔‘‘
میں نے کہا، ’’نہیں شیخ صاحب۔۔۔ شام کو۔‘‘ شیخ صاحب نے کہا، ’’تو آپ مطمئن رہیں، میں آپ کو وہاں پہنچا دوں گا۔‘‘ یہ سن کر مجھے بے اختیار ہنسی آ گئی۔۔۔ ایک بج چکا تھا۔ شیخ سلیم، نصیر انور اور میں نے گورنمنٹ کالج کے ہوسٹل کے سامنے گھاس کے میدان پر بیٹھ کر ’’آلو چھولے‘‘ کھائے اور اس خیال سے کہ کہیں آواز نہ پڑ جائے، جلدی لوٹ آئے اور فیصلے کا انتظار کرنے لگے۔ نصیر انور اور عارف عبدالمتین سے میں نے اشارتاً کئی بار کہہ دیا تھا کہ وہ جرمانے کا بندوبست کر لیں تاکہ عین وقت پر پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔۔۔ شیخ سلیم پی پی کر اسکیمیں سوچ رہا تھا کہ وہ جیل میں مجھ تک کیسے پہنچے گا اور میری آسائش کا بندوبست کن ذرائع سے کرے گا۔
عزیزی مشتاق احمد اپنے ایک دولت مند دوست شریف صاحب کو میری ضمانت دینے کے لئے پکڑ لائے تھے۔ یہ غریب بھی ہماری طرح کھڑے بور ہو رہے تھے۔ شیخ سلیم کو غصہ تھا کہ جب وہ موجود ہے تو کوئی اور ضمانت دینے کے لئے کیوں لایا گیا۔ میں نے ان سے کہا، ’’شیخ صاحب! اگر آپ کو ضمانت دینے ہی کا شوق ہے تو دو ملزم اور موجود ہیں۔‘‘ شیخ صاحب اس وقت اچھے موڈ میں تھے۔ میری یہ بات سن کر مسکرا دیے اور ایک پیگ اور چڑھا کر اسکیمیں سوچنے میں محو ہو گئے۔ ان کو اس بات کی بہت فکر تھی کہ منٹو کی شام خراب ہو جائے گی۔
پانچ بج گئے۔ تشویش اور تردد بڑھتا گیا۔ نصیر بالکل بے پروا تھا۔ جیسے کچھ ہونے والا نہیں۔ اس کی یہ بے پروائی قابل رشک تھی۔ عارف عبد المتین کا حلق اب اتنا خشک ہو چکا تھا کہ اس نے بولنا بند کر دیا تھا۔۔۔ ساڑھے پانچ ہوئے تو ہمیں بلایا گیا۔ فوراً شیخ خورشید صاحب کو اطلاع دی گئی۔ وہ بھاگے بھاگے آئے۔ ہم سب حاضر عدالت ہوئے۔ میاں اے ایم سعید دانتوں تلے قلم دبائے، سامنے میز پر فیصلے کے کاغذ رکھے سوچ میں غرق بیٹھے تھے۔ شیخ خورشید کے چہرے سے صاف ظاہر تھا کہ وہ بے حد مضطرب ہیں۔ میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ شیخ سلیم کا رنگ زرد تھا۔ عارف عبدالمتین بار بار ہونٹوں پر خشک زبان پھیر رہا تھا۔۔۔ نصیر انور اسی طرح بے پروا تھا۔
پریس رپورٹر موجود تھے۔ کاغذ پنسل ہاتھ میں لئے وہ بڑی بے چینی سے فیصلے کے انتظار کر رہے تھے۔ چند لمحات مکمل سکوت طاری رہا۔ اس کے بعد میاں ایم اے سعید صاحب کھنکارے۔ دانتوں کی گرفت سے قلم آزاد کیا۔ نب کو روشنائی دکھائی، فیصلے کے کاغذ الٹ پلٹ کئے اور بہت سوچ سوچ کر ایک کاغذ پر خالی جگہیں پر کیں۔۔۔ اس کے بعد میرے بارے میں اپنا فیصلہ صادر فرمایا۔۔۔ تین مہینے قید بامشقت اور تین سو روپے جرمانہ۔۔۔ عدم ادائیگی جرمانہ کی صورت میں اکیس یوم مزید قید بامشقت۔۔۔ شیخ سلیم کا رنگ اور زیادہ زرد ہو گیا۔ اس نے نگاہوں ہی نگاہوں میں مجھے تسلی دی۔ گویا یہ کہہ رہا ہے، ’’کچھ فکر نہ کرو، میں وہاں جیل میں ضرور پہنچوں گا۔‘‘
میں یہ سوچنے لگا تھا کہ مجسٹریٹ ضمانت قبول کرے گا یا نہیں۔۔۔ تھوڑے وقفے کے بعد میاں اے ایم سعید نے دوسری خالی جگہیں پر کیں اور بقایا دو ملزمین کے بارے میں فیصلہ سنایا۔۔۔ تین تین سو روپیہ جرمانہ۔۔۔ عدم ادائیگی جرمانہ کی صورت میں اکیس یوم قید بامشقت۔ میں نے جرمانہ داخل کر دیا۔ شیخ خورشید صاحب نے میری ضمانت کے کاغذ پیش کئے تو میاں اے ایم سعید نے کہا، ’’میں اگر ضمانت منظور کرتا ہوں تو سزا کا مطلب ہی فوت ہو جاتا ہے۔‘‘ شیخ خورشید صاحب نے یہ استدلال پیش کیا، ’’آپ کا ارشاد درست۔ ملزم نے جرمانہ ادا کر دیا ہے جو اپیل منظور ہونے کی صورت میں یقیناً واپس مل جائے گا۔ لیکن وہ دو تین دن جو ضمانت ہونے سے پہلے میرا مؤکل جیل میں کاٹے گا۔ اپیل منظور ہونے پر کیا اسے واپس مل جائیں گے۔‘‘
استدلال بہت معقول تھا، مگر پھر بھی میاں اے ایم سعید کچھ دیر اڑے رہے۔ آخر میں کرم فرمائی کی اور میری ضمانت قبول کر لی۔ عارف عبد المتین کے والد صاحب نے ان کا جرمانہ ادا کر دیا۔ اب رہ گئے نصیر انور۔ ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے بڑی بے پروائی سے کہا، ’’میرے پاس تو فی الحال کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ مجسٹریٹ صاحب نے حکم دیا کہ ہتھکڑی لگاؤ اور جیل بھیج دو۔ نصیر انور اسی طرح خاموش کھڑا رہا۔ میرے پاس دو سو روپے موجود تھے۔ چودھری نذیر مالک نیا ادارہ سے میں نے کہا کہ ایک سو روپے کا بندوبست کر دیں، مگر ان سے نہ ہو سکا۔ سپاہی ہتھکڑیاں لئے نصیر کی پیٹھ پیچھے کھڑا تھا۔ ان کی جھنکار عدالت کے کمرے میں گونج رہی تھی۔ باہر پولیس وین تھی۔ یعنی سارے لوازمات موجود تھے۔ آخر خورشید صاحب ہی کام آئے۔ آپ نے میاں اے ایم سعید صاحب سے بڑے مناسب و موزوں الفاظ میں درخواست کی کہ وہ نصیر انور کی ضمانت لے لیں۔ جرمانے کا روپیہ وہ کل صبح داخل کر دیں گے۔ مجسٹریٹ صاحب نے یہ درخواست قبول کر لی۔ اب ضامن کا سوال تھا۔ شیخ خورشید صاحب نے پوچھا، ’’ان کی ضمانت کون دے گا۔‘‘
کوئی آگے نہ بڑھا۔ اچانک شیخ سلیم نے، جواب تک نشے میں دھت ہو چکے تھے، شیخ خورشید صاحب سے مخمور لہجے میں کہا، ’’نصیر صاحب کی ضمانت میں دیتا ہوں۔‘‘ میرا دل دھڑکنے لگا، اگر عدالت کو معلوم ہو گیا کہ شیخ صاحب پئے ہوئے ہیں تو ان کی ضمانت کون دے گا۔۔۔ مجھے یقین تھا کہ وہ ضرور دھر لئے جائیں گے اور سارا معاملہ چوپٹ ہو جائے گا۔۔۔ میں اسی خوف کے مارے کمرے سے باہر چلا گیا۔ بار بار اندر جھانک کر دیکھتا کہ شیخ سلیم گرفتار ہوئے ہیں یا کہ نہیں، لیکن خیریت گزری۔ نصیر انور کی ضمانت ہو گئی۔۔۔ شیخ صاحب جھومتے ہوئے باہر نکلے اور مجھے گلے لگا کر رونے لگے، ’’اللہ میاں نے میرے بھائی کو بچا لیا۔‘‘ یہ کہہ کر آپ نے جیب سے بوتل نکال کر ایک گھونٹ بھرا جو کہ آخری تھا، ’’چلو بھئی چلیں۔ کہیں دکان بند نہ ہو جائے۔‘‘
نصیر انور بہت ممنون و متشکر تھا۔ بار بار شیخ سلیم کا شکریہ ادا کرتا تھا۔ شیخ صاحب نے اس سے کہا، ’’شکریہ ادا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں نے اپنا فرض ادا کیا ہے آپ میرے دوست کے دوست ہیں۔‘‘
اب سیشن میں اپیل دائر کرنے کی تیاریاں شروع ہوئیں۔ میاں اے ایم سعید کے فیصلے کی نقل حاصل کرنے کے لئے درخواست دی۔ جب نہ ملی تو درخواست کے ساتھ نو ’’پہیے‘‘ لگائے۔۔۔ نقل مل گئی۔ میاں صاحب کا فیصلہ انگریزی میں تھا۔ ذیل میں اس کا اردو ترجمہ درج ہے،
فیصلہ، ایک اردو رسالہ بہ بنام ’’جاوید‘‘ کے ایڈیٹر عارف عبدالمتین اور اس کے پبلشر نصیر انور کو معہ ایک مصنف مسمی سعادت حسن منٹو کے میرے پاس مقدمہ زیر دفعہ ۲۹۲ پی پی سی کے لئے بھیجا گیا ہے۔ موخر الذکر ملزم کے خلاف یہ الزام ہے کہ وہ ایک فحش کہانی جس کا عنوان ’ٹھنڈا گوشت‘ ہے، کا مصنف ہے اور جو مذکورہ بالا رسالہ کے ایک خاص نمبر میں شائع ہوئی ہے۔ دوسرے دو ملزموں کے خلاف یہ الزام ہے کہ انہوں نے اس کہانی کو مندرجہ بالا انداز میں شائع کرنے کا جرم کیا ہے۔
رسالہ ’جاوید‘ کا خاص نمبر مارچ ۱۹۴۹ء میں شائع ہوا تھا۔ یہ سید ضیاء الدین مترجم پریس برانچ حکومت پنجاب کے علم میں آیا، جو اس مقدمہ میں گواہ استغاثہ (۳) کی حیثیت سے پیش ہوا ہے۔ اس کا یہ فرض ہے کہ وہ کسی بھی طبع شدہ چیز میں کوئی فحش مواد محسوس کرے تو اس سے حکومت پنجاب کو مطلع کرے۔ اس کے خیال میں مذکورہ بالا ایڈیشن میں شائع شدہ کہانی بعنوان ’ٹھنڈا گوشت‘ فحش تھی، چنانچہ اس نے حکومت پنجاب کی توجہ اس طرف مبذول کرائی اور اس غرض کے لئے قانونی کارروائی کے لئے کہا۔ اس کہانی کی تصنیف اور خاص نمبر میں اس کی اشاعت سے انکار نہیں کیا گیا اور نہ پہلے دونوں ملزم رسالے کے مدیر اور ناشر ہونے سے منکر ہیں۔ لہٰذا اب سوال صرف یہ رہ جاتا ہے کہ کہانی بعنوان ’ٹھنڈا گوشت‘ فحش ہے یا نہیں۔
استغاثے نے مذکورہ رسالے کے خاص نمبر کو پیش کیا ہے جو ریکارڈ میں (Ex.P.F) کی حیثیت سے درج کیا گیا ہے۔ کہانی جو اس قانونی چارہ جوئی کا موضوع ہے، اس شمارے کے صفحہ ۸۸ سے۹۳ تک چھپی ہے۔ میں نے نہایت غور سے اس کہانی کو پڑھا۔ جو موضوع کی تشکیل کرتی ہے اور دیکھا کہ اس میں گندہ طرز بیان اور ناشائستہ گالیاں استعمال کی گئی ہیں۔ میں نے یہ بھی محسوس کیا، اس کہانی میں کئی شہوت پرستانہ مقامات پیش کئے گئے ہیں اور جنسی اشارات کا اکثر ذکر کیا گیا ہے۔ یہ طے کرنے کے لئے کہ آیا کوئی تصنیف مثلاً زیربحث کہانی فحش ہے یا نہیں، ضروری ہے کہ ایک معیار مقرر کیا جائے جس سے فحاشی کی تمیزکی جا سکے۔
۳ کیو بی (۱۸۶۸ء) میں ہکلن رپورٹ میں اسی موضوع کے ایک مشہور مقدمے میں لارڈ کوک بورن جی نے صفحہ نمبر ۳۶۰ (یا صفحہ ۳۷۱) پر فحاشی کا یہ معیار مقرر کیا تھا، اس قسم کا الزام زدہ مواد جو ان لوگوں کو بداخلاقی اور بدچلنی کی ترغیب دے جن کے اذہان اس قسم کے مخرب اخلاق اثرات قبول کر سکتے ہوں اور جن کے ہاتھوں میں اس قسم کا مواد پہنچ سکتا ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کی تمام عدالت ہائے عالیہ ہمیشہ اس معیار کی تقلید کرتی رہی ہیں۔ اس معیار سے یہ ظاہر ہے کہ قانون میں مستعملہ عریانی اس ماحول سےمتعلق ہے جس میں کہ یہ جانچی جانی ہے، وہ باتیں جو ایک پاکستانی کے اخلاق کے لئے ضرر رساں خیال کی جائیں۔ جہاں تک ایک فرانسیسی کا تعلق ہے، بالکل بے ضرر سمجھی جا سکتی ہیں۔ ہر سوسائٹی کے اپنے اخلاقی معیار ہوتے ہیں اور وہ چیزیں جو ایک سوسائٹی کا اخلاقی قوام خیال کی جاتی ہیں، بعض اوقات اسی دوسری سوسائٹی کے معیار کے مطابق غیر اخلاقی ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح اظہار کے بعض اسالیب کا اثر مختلف سوسائٹیوں کے افراد پر مختلف ہوتا ہے۔ خواہ یہ اظہار مخالف معیاروں کے نزدیک غیر اخلاقی ہی کیوں نہ ہو۔ اس لئے زیربحث کہانی کے فحش یا غیر فحش ہونے کا فیصلہ پاکستان کے مروجہ اخلاقی معیاروں کے پس منظر پر کرنا ہوگا اور اس اثر کے مطابق جو اس قسم کی تحریر اس سوسائٹی میں رہنے والے لوگوں کے اذہان پر ڈالے گی۔
لارڈ کوک برن کا قائم کردہ معیار ایک مکمل اور جامع تعریف نہیں ہے۔ یہ جیساکہ اس کا مفہوم ظاہر کرتا ہے صرف ایک معیار ہے۔ اس کے علاوہ کچھ اور بھی معیار ہو سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک وہ رجحان ہے (یہ الزام زدہ مواد میں موجود ہے) جو قارئین کے اخلاقی احساسات کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔ یہ معیار بھی قارئین کے اخلاق پر منحصر ہے۔ استغاثہ نے ابتدا میں صرف پانچ گواہ پیش کئے اور اپنا کیس بند کر دیا۔
گواہ استغاثہ، ۱۔ مسٹر محمد یعقوب منیجر کپور پرنٹنگ پریس۔ ۲۔ شیخ محمد طفیل۔۔۔ ۴۔ مرزا محمد اسلم گواہ استغاثہ ۵۔ خدا بخش نے ان امور کے متعلق شہادت دی جن کا فحاشی سے کوئی تعلق نہیں۔ گواہ استغاثہ ۳ سید ضیاء الدین نے دوسرے امور بیان کرنے کے علاوہ اپنی رائے ظاہر کی کہ زیربحث کہانی فحش ہے۔ تاہم ریکارڈ میں کوئی اس قسم کا مواد نہیں جس سے ظاہر ہو کہ یہ گواہ ماہر ادب سمجھا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں قانون شہادت کی دفعہ ۴۵ کی رو سے اس کی شہادت قابل قبول نہیں ہے۔ اس لئے جہاں تک فحاشی کے مسئلے کا تعلق ہے، استغاثے کا کیس جیسا کہ ابتداً پیش کیا گیا، خود عدالت کی رائے اور الزام زدہ مواد کے مطالعہ کے بعد اس کی ماہیت پر منحصر ہو گا۔
ملزمین نے صفائی میں سات گواہ ادبی امور کے ماہرین کی حیثیت سے پیش کئے۔ ان گواہوں کی شہادت سے یہ ثابت کرنا مقصود تھا کہ زیر بحث تحریر فحش نہیں ہے۔ صفائی کے اختتام پر استغاثے نے درخواست کی کہ مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر کچھ اور ماہرین بطور عدالتی گواہ بلائے جائیں اور میں نے انصاف کی خاطر چار اور ماہروں کو بطور عدالتی گواہ بلوایا۔ بیشتر ماہرین نے خواہ وہ صفائی کی طرف سے پیش ہوئے یا عدالت کی طرف سے کسی نہ کسی فریق کے حق میں، رائے دی کہ زیربحث کہانی فحش ہے یا نہیں۔ جیساکہ پہلے کہا جا چکا ہے، تعزیرات میں جو فحاشی کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے، اس کی ٹیکنیکل اہمیت ہے، جس کا تعین عدالت کو کرنا ہے۔ ماہرین کی شہادت اسی حد تک ضروری ہے۔ جہاں تک یہ ادب کے مروجہ معیاروں، اظہار کی شستگی، سوقیانہ پن، اخلاقی یا غیر اخلاقی حیثیت اور اس رجحان کے متعلق جو کوئی تحریر قارئین کے اذہان پر اثر انداز ہو روشنی ڈالتی ہے۔ ان امور سے یہ تعین کرنا عدالت کا کام ہے کہ کوئی چیز ’فحاشی‘ کی شرائط کو پورا کرتی ہے یا نہیں۔
صفائی کے گواہ (۱) مسٹر عابد علی عابد (۲) مسٹر احمد سعید (۳) ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم (۴) ڈاکٹر سعید اللہ (۵) فیض احمد فیض (۶) صوفی غلام مصطفی تبسم (۷) ڈاکٹر آئی لطیف سب صاحب علم ہیں۔ ان کے خیال کے مطابق کیونکہ آرٹ زندگی کا آئینہ دار ہے۔ اس لئے فن کار کوئی ایسی چیز جو زندگی کی سچی تصویر ہو، حقیقت پسندانہ طور پر پیش کرنے سے اپنے حقوق سے تجاوز نہیں کرتا۔ اس لئے وہ یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ زندگی کا حقیقت پسندانہ اظہار فحش نہیں ہو سکتا۔ وہ زیربحث کہانی کی غیر شائستہ زبان اور اس کے سوقیانہ محاوروں کو بھی قابل گرفت نہیں سمجھتے۔ کیونکہ یہ اس قسم کی گفتگو کی نمائندگی کرتے ہیں، جو پیش کردہ کردار کے نوع کے لوگ بولتے ہیں۔ ان میں سے بعض نے یہ کہا ہے کہ زیربحث کہانی میں قارئین کے اخلاق کو بگاڑنے کا کوئی میلان نہیں پایا جاتا۔ بعض نے اس نکتے پر خاموشی اختیار کی۔ عدالتی گواہ (۱) مولانا تاجور (۲) آغا شورش کاشمیری (۳) مولانا ابو سعید بزمی (۴) ڈاکٹر تاثیر بھی اسی پائے کے علمی آدمی ہیں۔ ان گواہوں کی شہادت سے یہ بات نمایاں ہوتی ہے کہ زیربحث کہانی ’برا ادب‘ ہے اور غیر شائستگی سے پیش کی گئی ہے۔
صفائی کے گواہ (۷) ڈاکٹر آئی لطیف نے رائے ظاہر کی کہ اگر زیربحث کہانی کسی میڈیکل جریدے میں شائع ہوتی تو یہ ایک سبق آموز کیس ہسٹری ہوتی، لیکن ایک مقبول عام رسالے میں جسے ہر شخص پڑھ سکتا ہے، ناموزوں معلوم ہوتی ہے۔ صفائی کے گواہ (۵) کرنل فیض احمد فیض کا خیال ہے کہ اگرچہ وہ اسے فحش نہیں کہہ سکتے تاہم یہ کہانی ادب کا کوئی اچھا نمونہ نہیں۔ اس میں بعض غیر شائستہ محاورے استعمال کئے گئے ہیں۔ جن سے اجتناب کیا جا سکتا تھا۔ عدالتی گواہ نمبر(۱) مولانا تاجور نے اس کی سخت اور غیر مبہم الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ انہوں نے اپنے چالیس سالہ ادبی تجربہ میں اس سے زیادہ کوئی چیز غیر شائستہ نہیں دیکھی۔ عدالتی گواہ نمبر(۴) ڈاکٹر تاثیر کی رائے ہے کہ اس میں ان لوگوں کا اخلاق بگاڑنے کا رجحان موجود ہے، جو شہوانی حرص کی طرف مائل ہوتے ہیں۔
پاکستان کے مروجہ اخلاقی معیار قرآن پاک کی تعلیم کے حوالے سے بہت صحیح طور پر معلوم ہو سکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ غیر شائستگی اور شہوانیت کی لگام شیطان کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ غیر شائستگی، شہوانیت، نفس پرستی اور سوقیانہ پن زندگی میں موجود ہے۔ اگر ادبی مذاق کے اس معیار کو تسلیم کر لیا جائے جسے صفائی کے گواہوں نے بیان کیا ہے تو زندگی کے پہلوؤں کا حقیقت نگارانہ اظہار اچھا ادب ہو سکتا ہے لیکن پھر بھی یہ ہمارے معاشرے کے اخلاقی معیار کی خلاف ورزی کرے گا۔ ملزم سعادت حسن منٹو کی لکھی ہوئی کہانی ایک سوقیانہ آدمی کے کردار کو پیش کرتی ہے جو اپنی معشوقہ سے، جسے بہت شہوت پرست دکھایا گیا ہے، وحشیانہ اور سوقیانہ انداز سے جنسی فعل کا طالب ہوتا ہے۔ جنسی تضمین کے ساتھ غیر شائستہ گالیوں کا استعمال عام کیا گیا ہے، جنسی نوع کے افعال کے سلسلے میں نسوانی جسم کے بعض پوشیدہ اعضاء کا ذکر نہایت بدتہذیبی سے کیا گیا ہے۔ ساری کہانی ایک ناشائستہ جنسی معاملے پر مرکوز ہے۔ درحقیقت جنسی بدتہذیبی ہی اس کہانی کا بنیادی تصور ہے۔
ادبی اور نفسیاتی ماہر کہانی کا ایک خاص انداز سے رد عمل قبول کر سکتے ہیں۔ تاہم میری رائے میں ایک الّھڑ نابالغ پر اس قسم کی کہانی کا ردعمل اظہار، بول چال اور خیالات میں غیر شائستگی کی حوصلہ افزائی کی صورت میں ہوگا۔ سعادت حسن منٹو جیسے بزعم خود مشہور مصنف کی مثال پیش نظر رکھتے ہوئے وہ نوجوان جو اس کہانی کو پڑھیں گے اسی طرح سے غیر شائستگی کو تقویت دیں گے۔ کہانی بعنوان ’ٹھنڈا گوشت‘ کو غور سے پڑھنے کے بعد مجھے اطمینان ہو گیا ہے کہ اس میں قارئین کا اخلاق بگاڑنے کا میلان موجود ہے اور یہ ہمارے ملک کے مروجہ اخلاقی معیاروں کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ ا س لئے میں ملزم سعادت حسن منٹو کو ایک فحش تحریر پیش کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتا ہوں، اور اسے زیردفعہ ۲۹۲، پی پی سی تین ماہ قید بامشقت اور تین سو روپے جرمانے کی سزا دیتا ہوں۔ عدم ادائیگی جرمانہ کی صورت میں اس کو مزید ۲۱ یوم کی سزا بھگتنی پڑے گی۔
ملزمین عارف عبد المتین اور نصیر انور جو واضح طور پر جریدے کے مدیر اور ناشر ہیں، جس میں مذکورہ کہانی شائع ہوئی ہے، ایک فحش تصنیف کی اشاعت عام کے مجرم ہیں اور وہ بھی اسی دفعہ کے تحت آتے ہیں۔ تاہم ان کے معاملے میں ان کی کم عمری کے پیش نظر اور پھر یہ کہ کہانی کا مصنف ایک ایسا شخص تھا، جو خاصی ادبی شہرت کا مالک ہے، انہیں اس اعتماد کی وجہ سے کہانی قبول کر لی ہوگی کہ یہ قابل قبول ادب پارہ ہوگا، میں ان ہر دو ملزموں کے لئے تین تین سو روپیہ جرمانے کی نرم سزا تجویز کرتا ہوں چونکہ یہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرے گی۔ ا س لئے میں اس کے مطابق حکم دیتا ہوں عدم ادائیگی جرمانہ کی صورت میں ملزمین عارف عبد المتین اور نصیر انور کو اکیس یوم قید بامشقت بھگتنی پڑے گی۔
دستخط
اے ایم سعید مجسٹریٹ درجہ اول لاہور
۲۸ جنوری ۱۹۵۰ء کو سیشن میں اپیل دائر کر دی گئی۔ تاریخ ملنے پر ہم مہر الحق صاحب سیشن جج، لاہور کی عدالت میں پیش ہوئے۔ آپ نے اس بنا پر کہ وہ مجھے اور میرے خاندان کو بہت اچھی طرح جانتے تھے اور ہم شہر (یعنی امرتسر کے) تھے۔ مقدمہ مسٹر جوشوا ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں منتقل کر دیا۔ دوسری پیشی پر حاضر ہوئے تو معلوم ہوا کہ مسٹر جوشوا نے کیس واپس مہر الحق صاحب کو بھیج دیا ہے۔ یہ عذر ظاہر کر کے کہ وہ اردو زبان اچھی طرح نہیں جانتے۔۔۔ مہر الحق صاحب نے سوچ بچار کے بعد مقدمہ عنایت اللہ خان صاحب ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت کے سپرد کر دیا۔ ہم حاضر ہوئے تو عنایت اللہ خان صاحب نے ہمارے وکیل سے فرمایا، ’’یہ کیس چونکہ میرے لئے اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے، ا س لئے میں اچھی طرح اسٹڈی کرنا چاہتا ہوں۔ اس کے لئے وقت درکار ہے میں آپ کو ایک مہینے بعد کی تاریخ دیتا ہوں۔‘‘
شیخ خورشید احمد نے کہا ٹھیک ہے، چنانچہ دلائل کے لئے دس جولائی کی تاریخ مقرر ہو گئی۔ شیخ خورشید صاحب نے عدالت سے باہر آ کر مجھ سے کہا، ’’اچھا ہے۔ اس دوران میں میں بھی خوب تیاری کر لوں گا۔‘‘ لیکن انہوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ ہمارا کیس غلط آدمی کے پاس گیا ہے جو بڑا تنگ خیال ہے۔ داڑھی رکھتا ہے۔ نماز روزے کا پابند ہے۔ میں نے کہا، ’’ہٹایئے، یہاں نہیں تو ہائی کورٹ میں دیکھا جائے گا۔‘‘ شیخ خورشید صاحب نے اس دوران میں اپنی رہبری کے لئے مجھ سے کہا کہ میں اپنے افسانے ’ٹھنڈا گوشت‘ پر ایک مختصر سا تبصرہ لکھ دوں، چنانچہ میں نے درج ذیل سطور لکھ کر ان کے حوالے کر دیں۔
یوں تو کہانی بظاہر جنسی نفسیات کے ایک نکتے کے گرد گھومتی ہے، لیکن درحقیقت اس میں انسان کے نام ایک نہایت ہی لطیف پیغام دیا گیا ہے کہ وہ ظلم و تشدد اور بربریت و حیوانیت کی آخری حدود تک پہنچ کر بھی اپنی انسانیت نہیں کھوتا، اگر ایشر سنگھ اپنی انسانیت کھو چکا ہوتا تو مردہ عورت کا احساس اس پر اتنی شدت سے کبھی اثر نہ کرتا کہ وہ اپنی مردانگی ہی سے عاری ہو جاتا۔ اتنے شدید قسم کے اثر کو نفسیاتی نقطۂ نگاہ سے مناسب و موزوں اور قریب از حقیقت دکھانے کے لئے ضروری تھا کہ ایشر سنگھ کو جنسی لحاظ سے عام مردوں کے مقابلے میں زیادہ قوی بتایا جاتا، چنانچہ مصنف نے کہانی میں جگہ جگہ اپنے قلم کی جنبش سے بقدر کفایت ایسا کیا ہے۔
ایشر سنگھ کے کردار کے جنسی پہلو کو اور زیادہ اجاگر کرنے اور اس طرح اسے اس کے دردناک انجام کو قاری کے لئے قابل قبول بنانے کے لئے مصنف نے کلونت کور کا کردار پیش کیا ہے جو ایشر سنگھ ہی کی طرح عام عورتوں کے مقابلے میں جنسی لحاظ سے کہیں زیادہ قومی اور توانا ہے۔ اگر ایشر سنگھ ایک عام مرد ہوتا، اسی طرح اگر کلونت کور ایک عام عورت ہوتی تو یقینی طور پر افسانہ ’ٹھنڈا گوشت‘ کا انجام کچھ اور ہی ہوتا۔ عام مرد پر جس کا جنسی تعلق ایک عام عورت سے رہا ہو، ایک لڑکی کی ٹھنڈی لاش ہر گز ہر گز وہ نفسیاتی اثر نہیں کر سکتی جو ایشر سنگھ نے اپنے قومی اور توانا جنسی کردار کے باعث محسوس کیا۔۔۔ اور اس شدت سے محسوس کیا کہ وہ اس کے نیچے دب کر، بلکہ پس کر اپنی مردانگی کھو بیٹھا۔
شہوت ایک جذبہ آتشیں ہے۔ انسان میں اگر یہ جذبہ بیدار ہو تو اس کے جسم میں گرم رو دوڑ جاتی ہے۔ اس کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ اس کا دل و دماغ تپ جاتا ہے۔ زیر بحث افسانے کا عنوان ’ٹھنڈا گوشت‘ ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ عنوان جو کہ معنوی اعتبار ہی سے ٹھنڈا ہے، قاری کے دل و دماغ میں کسی قسم کی گرمی پیدا نہیں کر سکتا۔
اگر کوئی عورت جنسی لحاظ سے کمزور ہو تو ہم اسے ’ٹھنڈی عورت‘ کہتے ہیں، یعنی ایسی عورت جو مرد میں جنسی خواہش پیدا نہیں کرتی۔ افسانہ ’ٹھنڈا گوشت‘ میں کلائمکس پیدا کرنے والی ایک لڑکی کی ٹھنڈی لاش ہے۔ ایسی ٹھنڈی لاش جو ایشر سنگھ جیسے پرجوش شہوانی مرد کی ساری مردانگی پر برف کی سل کی طرح گرتی ہے اور اسے یخ بستہ کر دیتی ہے۔۔۔ ہم بخوبی سوچ سکتے ہیں کہ ’ٹھنڈا گوشت‘ پڑھنے والے قارئین پر جو یقیناً ایشر سنگھ کی طرح پرجوش شہوانی انسانی نہیں ہو سکتے، اس کہانی کے انجام نے کس قسم کا اثر چھوڑا ہوگا۔۔۔ صفائی کے گواہ ڈاکٹر سعید اللہ ایم اے، ایل ایل بی، پی ایچ ڈی، ڈی ایس سی نے اپنے تاثر کو مختصر مگر جامع الفاظ میں کیا خوب بیان کیا ہے، ’’افسانہ ’ٹھنڈا گوشت‘ پڑھنے کے بعد میں خود ’ٹھنڈا گوشت‘ بن گیا۔‘‘
جہاں تک نورمل انسانوں کا تعلق ہے، ہم بلاخوف تردید کہہ سکتے ہیں کہ یہ افسانہ پڑھنے کے بعد ان کا رد عمل بعینہ ایسا ہی ہوگا۔ یہ جدابات ہے کہ وہ ڈاکٹر سعید اللہ صاحب کی طرح اپنے محسوسات کو بطریق احسن بیان نہ کر سکیں۔۔۔ ابنارمل انسانوں کے متعلق ہم کچھ نہیں کہہ سکتے، کیونکہ ایسے لوگ موجود ہیں جو لاشوں سے بھی مباشرت کر سکتے ہیں۔
’ٹھنڈا گوشت‘ میں مرد اور عورت کے جنسی تعلقات کو کسی مقام پر بھی لذیذ انداز میں پیش نہیں کیا گیا۔ اولاً اس لئے کہ ایسا انداز افسانے کے مقصد سے متصادم تھا۔ ثانیاً ا س لئے کہ افسانے کا مصنف ’شہوت نگار‘ نہیں ہے۔ ’ٹھنڈا گوشت‘ کوئی جوڑ دار آسن نہیں پیش کرتا۔ امساک کا نسخہ نہیں بتاتا۔ کسی خفیہ تصویر کی جھلک نہیں دکھاتا۔ ’ٹھنڈا گوشت‘ البتہ ایک دردناک تصویر ہے ایک ایسے مرد کی جس میں انسانیت کی رمق، اس کے کردار کی تمام ہولناکیوں کے باوجود باقی تھی۔۔۔ اس رمق نے گو اسے انجام کار نامرد بنا دیا اور وہ اپنے جنسی رفیق کے حسد کے باعث نہایت ہی تکلف دہ موت سے ہمکنار ہوا، لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ مرتے ہوئے اسے اپنی موت کا احساس بالکل نہیں تھا۔ اس لئے کہ اس کے دل و دماغ پر صرف ایک چیز مسلط تھی۔۔۔ اس لڑکی کی لاش کا برف ناک رد عمل جس کے ساتھ وہ مباشرت کرنا چاہتا تھا۔
مرنے سے پہلے ایشر سنگھ کو اپنی بہمیت کا احساس بھی ہوا۔۔۔ اور یہ احساس اس کے ارد گرد پھیلی ہوئی ظلمت میں روشنی کی ایک کرن تھی۔ مصنف لکھتا ہے، ’’لہو ایشر سنگھ کی زبان تک پہنچ گیا۔ جب اس نے اس کا ذائقہ چکھا تو اس کے بدن پر جھرجھری سے دوڑ گئی۔۔۔ اس نے اپنے آپ سے کہا، اور میں۔۔۔ اور میں۔۔۔ بھینی یا چھ آدمیوں کو قتل کر چکا ہوں۔۔۔ اسی کرپان سے!‘‘
ایشر سنگھ نے اپنی کرپان سے چھ آدمی قتل کئے تھے۔ جو نفسیاتی حادثہ اسے پیش آیا، اس سے پہلے غالباً اس نے کبھی غور نہ کیا ہوگا کہ اس کے ہاتھوں چھ آدمیوں کا خون ہو چکا ہے۔۔۔ مگر اب وہ اپنے خون کا ذائقہ چکھتے ہوئے سوچتا ہے، بلکہ یوں کہئے کہ یہ سوچنے کے قابل ہو جاتا ہے کہ جس کرپان نے میرا گلا کاٹا ہے، اس سے میں چھ آدمی کاٹ چکا ہوں۔۔۔ اور جب وہ ’’چھ آدمیوں کو قتل کر چکا ہوں‘‘ کے ساتھ ’’بھینی یا‘‘ استعمال کرتا ہے تو کیا ہمیں اس گالی میں اس کی روح کی دردناک چیخ سنائی نہیں دیتی۔۔۔ آپ سنیئے، ’’اور میں۔۔۔ اور میں۔۔۔ بھینی یا چھ آدمیوں کو قتل کر چکا ہوں۔۔۔ اسی کرپان سے!‘‘
’’یعنی ایشر سنگھ۔۔۔ تو درد اور تکلیف محسوس کر رہا ہے۔۔۔ لیکن جانتا ہے تو کہ اس کرپان سے تو نے چھ آدمی مارے ہیں۔‘‘
ایشر سنگھ سے ہم اس کے خیالات و محسوسات کے خوش اسلوب بیان کی توقع نہیں کر سکتے۔ وہ ایک گنوار آدمی ہے، لیکن اس نے اپنے خام انداز میں سب کچھ بیان کر دیا۔۔۔ اور یہ خام انداز اپنی جگہ پر مناسب و موزوں ہے۔ ایشر سنگھ کی قوت مردمی سلب ہو چکی تھی، لیکن وہ اپنے اندر ایک نئی کروٹ محسوس کر رہا تھا۔۔۔ اس کے مقابلے میں کلونت کور کے دل و دماغ پر صرف ایک خیال مسلط تھا۔۔۔ اس عورت کا جس نے اس کے خیال کے مطابق اس کے شوہر ایشر سنگھ کو موہ لیا تھا۔ وہ پوچھتی ہے، ’’کون ہے وہ حرا م زادی؟‘‘
مصنف لکھتا ہے، ’’ایشر سنگھ کی آنکھیں دھندلا رہی تھیں۔ ایک ہلکی سی چمک ان میں پیدا ہوئی اور اس نے کلونت کور سے کہا، ’’گالی نہ دے اس بھڑوی کو۔‘‘
ان چھ الفاظ میں کیا مصنف نے ایشر سنگھ کے سارے جذبات جمع نہیں کر دیے؟ وہ کلونت کور کو منع کرتا ہے کہ وہ اس عورت کو گالی نہ دے، لیکن خود اسے ’’بھڑوی‘‘ کہتا ہے۔ دراصل اس گالی کا رخ اس کی اپنی ذات کی طرف ہے۔ وہ بظاہر تو رحم اس عورت پر کھاتا ہے جس کو کلونت کور ’حرام زادی‘ کہتی ہے، لیکن درحقیقت اس کو رحم اپنی حالت پر آتا ہے۔ ذرا آگے چلئے تو سارا مطلب واضح ہو جاتا ہے۔
کلونت کور چلائی، ’’میں پوچھتی ہوں، وہ کون ہے؟‘‘
ایشر سنگھ کے گلے میں آواز رندھ گئی، ’’بتاتا ہوں،‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنی گردن پر ہاتھ پھیرا اور اس پر اپنا جیتا جیتا خون دیکھ کر مسکرایا۔
’’انسان ماں یا بھی ایک عجیب چیز ہے۔‘‘
یہاں ہم ایشر سنگھ کو ایک فلسفی۔۔۔ ایک خام فلسفی کی حیثیت سے دیکھتے ہیں اور اس خام فلسفی کے عقب میں ہمیں صرف ایک چیز نظر آتی ہے۔۔۔ اس لڑکی کی ٹھنڈی لاش جس سے ایشر سنگھ جیسا ’گرم مرد‘ مباشرت کرنا چاہتا ہے۔۔۔ وہ مسکراتا ہے۔۔۔ صرف مسکرانے کے لئے نہیں۔ اس کی مسکراہٹ دراصل اس کی حیرت کا مظہر ہے۔۔۔ چونکہ وہ سمجھ نہیں سکتا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے، اس لئےوہ مسکرا دیتا ہے اور اپنے مضطرب ذہن سے فرار حاصل کرنے کے لئے خود سے کہتا ہے، ’’انسان ماں یا بھی ایک عجیب چیز ہے۔‘‘
یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے جو کسی انسان کے ساتھ پیش آ سکتا ہے۔۔۔ اس کو شہوانی جذبات کی برانگیختگی سے کیونکر منسوب کیا جا سکتا ہے؟ کہانی، جس میں ایک قوی اور توانا مرد کی شہوت سرد ہو جاتی ہے، پڑھنے والوں کے سفلی جذبات کیسے مشتعل کر سکتی ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ ’ٹھنڈا گوشت‘ میں چند ایسے الفاظ اور فقرے موجود ہیں جن کو اگر افسانے کے جسم سے نوچ کر علیحدہ کر کے دیکھا جائے تو وہ ناشائستہ اور غیر مہذب معلوم ہوں گے، مگر وہ افسانے کا لازمی جزو ہیں، جن کے بغیر افسانہ مکمل نہیں ہو سکتا۔ کسی لفظ کو یا کسی فقرے کو اس کے گرد کے ماحول کے ساتھ ہی دیکھنا پڑتا ہے۔
اگر آپ ’جگ ساپزل‘ میں سے ایک ٹکڑے کو اٹھا لیں اور کہیں، ’’یہ تو گدھے کی دم ہے۔‘‘ تو ظاہر ہے کہ آپ اپنی رائے صحیح طور پر قائم نہیں کر رہے، اس لئے کہ اس ٹکڑے کو اس کے صحیح مقام پر رکھ کر ’جگ ساپزل‘ کو من حیث المجموع دیکھنا پڑے گا، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ ٹکڑا دوسرے ٹکڑوں کے ساتھ جڑ کر کسی خوبصورت عورت کے گلے میں پڑی ہوئی لومڑ کی کھال کی شکل اختیار کر جائے۔ اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ جو ناشائستہ اور غیر مہذب الفاظ یا فقرے ہیں وہ کس قسم کے انسان کے منہ سے نکلے ہیں۔ ایشر سنگھ ایک گنوار اور غیر مہذب انسان ہے۔ اس کے منہ سے ہم شائستہ اور مہذب گفتگو کی توقع نہیں کر سکتے۔ اب ہم گالیوں کی طرف آتے ہیں جو ایشر سنگھ کے مکالموں میں ہمیں نظر آتی ہیں۔
ہم اس حقیقت سے کبھی اغماض نہیں کر سکتے کہ اکثر مہذب اور غیر مہذب انسان (مرد اور عورتیں) اپنی روزہ مرہ کی گفتگو میں گالیاں استعمال کرتے ہیں۔ ایشر سنگھ اپنی گفتگو میں گالیاں بغیر کسی تکلف کے استعمال کرتا ہے۔ اس لئے کہ اس کا مقصد گالی دینا نہیں۔ اکثر مقامات پر وہ گالی کو بطور تکیہ کلام کے استعمال کرتا ہے، ملاحظہ ہو،
’’اور میں۔۔۔ اور میں۔۔۔ بھینی یا چھ آدمیوں کو قتل کر چکا ہوں۔‘‘ ظاہر ہے کہ گالی کا رخ نہ تو خود ایشر سنگھ کی طرف ہے، نہ ان چھ آدمیوں کی طرف جنہیں وہ قتل کر چکاہے۔
’’گلا چرا ہوا ہے ماں یا میرا۔‘‘ ظاہر ہے کہ ’گلے‘ کی کوئی ماں نہیں ہے جس کو وہ گالی دے رہا ہے۔
’’یہ کڑی یا دماغ ہی خراب ہے۔‘‘ اس کے متعلق بھی ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ دماغ کی کوئی بیٹی نہیں ہے جس کو وہ گالی دے رہا ہے۔
اسی طرح کلونت کور ایک جگہ کہتی ہے، ’’یہ بھی کوئی ماں یا جواب ہے؟‘‘ دو مقامات پر ایشر سنگھ کہتا ہے، ’’انسان ماں یا بھی عجیب چیز ہے۔۔۔ انسان کڑی یا بھی عجیب چیز ہے!‘‘ جیسا کہ صفائی کے گواہ مسٹر آئی لطیف نے کہا ہے، یہ گالیاں اپنی جگہ بہت نفسیاتی اہمیت رکھتی ہیں۔ افسانے کو غور سے پڑھنے کے بعد قاری سمجھ سکتا ہے کہ ان گالیوں میں ایشر سنگھ کے مضطرب اور متجسس دل و دماغ کی کرب انگیز کیفیت جھلکیاں لیتی ہیں۔۔۔ وہ اپنی حالت کا صحیح جائزہ لینا چاہتا ہے، لیکن ناکام رہتا ہے اور آخر کار ان الفاظ میں فرار حاصل کرتا ہے۔ ’’انسان ماں یا بھی عجیب چیز ہے۔۔۔ انسان کڑی یا بھی عجیب چیز ہے!‘‘
دس جولائی کا دن گرجتا ہوا آن پہنچا۔ مجھے سخت تشویش لاحق تھی۔ گھر میں سب دعائیں مانگ رہے تھے کہ خداخیر کرے۔ جج صاحب نے خاص کیس سمجھتے ہوئے چار گھنٹے بحث کے لئے وقف کر رکھے تھے۔ مجھے ڈر تھا کہ میاں اے ایم سعید کی طرح کہیں عنایت اللہ خان صاحب کا رویہ بھی مخاصمانہ نہ ہو۔ کیونکہ ضبط کرنا میرے لئے بہت مشکل ہے۔ میاں سعید صاحب کی عدالت میں کئی دفعہ ایسے موقعے آئے تھے کہ میں چھلک پڑوں مگر حیرت ہے میں نے کیسے ضبط کیا۔ ہم سب صبح حاضر عدالت ہوئے تو عنایت اللہ خان صاحب نے اپنے دھیمے لہجے میں شیخ خورشید صاحب سے کہا، ’’معاف کیجئے، آپ کو آدھا گھنٹہ انتظار کرنا پڑے گا۔ میں ذرا یہ چھوٹے چھوٹے معاملے طے کر لوں۔‘‘
ہم عدالت سے باہر نکل آئے۔۔۔ عارف عبد المتین خاموش تھا۔ شیخ خورشید صاحب بھی خاموش تھے۔ اپنے ساتھ وہ موٹی موٹی قانونی کتابوں کا ایک ڈھیر اٹھا کے لائے ہوئے تھے۔ ان کا دماغ شاید ان کے حوالوں میں گم تھا۔ میں ہائی کورٹ کی سوچ رہا تھا۔ نصیر انور چھدری گھاس پر رومال بچھا کر اس پر بیٹھا غالباً کوئی کشمیری گیت گنگنا رہا تھا۔ پونے گھنٹے کے بعد ہمیں بلایا گیا۔ ہم عدالت کے کمرے میں داخل ہوئے۔ جج صاحب کو سلام کیا۔۔۔ عنایت اللہ خان صاحب نے گردن کی ایک ہلکی سی جنبش سے اس کا جواب دیا۔ ہم ملزموں کے کٹہرے کی طرف بڑھنے لگے تو آپ نے اپنی دھیمی آواز میں کہا، ’’کرسیوں پر تشریف رکھئے۔‘‘ میں سمجھا کہ شاید یہ کسی اور سے کہا گیا ہے، مگر ان کا روئے سخن ہماری طرف ہی تھا۔ مجھے بڑا خوشگوار تعجب ہوا۔۔۔ ہم کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ نصیر انور کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ وہ بے حد مطمئن نظر آتا تھا۔
پیشتر اس کے کہ بحث شروع ہوتی جج صاحب بولے، ’’میں نے اس کیس کا بغور مطالعہ کیا ہے۔ آپ حضرات مطمئن رہیں۔ کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔ میں نے مثل میں سے صرف عدالت ماتحت کا فیصلہ پڑھا ہے۔ گواہیوں کا میں نے مطالعہ کرنا غیر ضروری سمجھا ہے۔ البتہ افسانہ ’ٹھنڈا گوشت‘ بہت غور سے پڑھا ہے۔‘‘
بحث شروع ہونے والی تھی کہ عنایت اللہ خان صاحب نے استغاثے اور صفائی کے وکیلوں کی توجہ چند نکات کی طرف دلائی اور وضاحت چاہی۔ شیخ خورشید احمد خاموش رہے۔ ایک دو مرتبہ جج صاحب کی تائید میں البتہ کچھ ضرور کہا۔ پروسی کیوٹر صاحب کی تردید خود خان صاحب کر رہے تھے۔ قریباً آدھا گھنٹہ قانونی موشگافیاں کرنے کے بعد آپ نے مسکرا کر کہا، ’’میں سعادت حسن منٹو کو اگر سزا دوں تو وہ یہ کہیں گے ایک داڑھی والے نے مجھے سزا دی۔‘‘ اس کے بعد وہ کچھ دیر اور عدالت ماتحت کے فیصلے پر کچھ کہتے رہے۔ آخر میں ہم سے مخاطب ہوئے، ’’کیا آپ لوگوں نے جرمانہ ادا کر دیا تھا۔‘‘ ہم سب نے کہا، ’’جی ہاں۔‘‘ اس پر جج صاحب نے کہا، ’’آپ بری ہیں۔ جرمانہ آپ کو پورے کا پورا واپس مل جائے گا۔ میں چند لمحات کچھ سوچ نہ سکا کہ کیا ہوا ہے۔ شیخ خورشید صاحب نے میرا شانہ پکڑ کر ہلایا اور کہا، ’’اٹھئے حضرت۔ آپ بری ہیں۔‘‘
عدالت سے باہر نکل کر جب میں نے چپراسیوں کو دس روپے انعام کے طور پر دیے تو مجھے احساس ہوا کہ میں واقعی بری ہوں اور یہ کہ چوتھی مرتبہ میرا انجام بخیر و خوبی ہوا ہے۔ میں نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا جس نے ایک بہت بڑی لعنت سے مجھے رہائی دلائی۔ شیخ خورشید صاحب اپنی کامیابی پر بہت خوش تھے اور بجا خوش تھے۔ عنایت اللہ خان صاحب کے انگریزی زبان میں لکھے ہوئے فیصلے کا اردو ترجمہ یہ ہے،
اپیل بخلاف حکم مسٹر اے ایم سعید مجسٹریٹ درجہ اول لاہور
مورخہ ۱۶ جنوری ۱۹۵۰ء
دعوے از دفعہ ۲۹۲ پی پی سی
سزا، عارف عبد المتین تین سو روپیہ جرمانہ، بصورت عدم ادائیگی تین ہفتہ قید بامشقت۔ سعادت حسن منٹو کو تین ماہ قید بامشقت اور تین سو روپیہ جرمانہ، بصورت عدم ادائیگی اکیس یوم قید بامشقت۔ نصیر انور تین سو روپیہ جرمانہ۔ بصورت عدم ادائیگی تین ہفتے قید بامشقت۔
فیصلہ، یہ تین نوجوانوں عارف عبد المتین، نصیر انور اور سعادت حسن منٹو کی طرف سے ایک اپیل ہے۔ اول الذکر دونوں ایک اردو رسالہ ’جاوید‘ کے علی الترتیب مدیر اور ناشر ہیں۔ تیسرا ایک ادیب ہے جس نے مذکورہ رسالے کے مارچ ۱۹۴۹ء میں شائع شدہ ایک خاص نمبر میں اپنی ایک کہانی جس کا نام ’ٹھنڈا گوشت‘ہے، چھپنے کے لئے دی۔ انہیں بحکم میاں اے ایم سعید مجسٹریٹ درجہ اول لاہور مورخہ ۱۶ جنوری ۱۹۵۰ء زیردفعہ ۲۹۲ پی پی سی (فحش کتابوں کی فروخت وغیرہ) کی خلاف ورزی کے سلسلے میں مجرم قرار دیا گیا ہے۔ مصنف مسٹر منٹو کو تین ماہ قید بامشقت اور تین سو جرمانہ بصورت عدم ادائیگی جرمانہ ۲۱ یوم مزید قید بامشقت کی سزا دی گئی ہے۔ دوسرے دو یعنی مدیر اور ناشر کو صرف تین تین سو جرمانہ بصورت عدم ادائیگی تین تین ہفتہ قید بامشقت کی سزا دی گئی ہے۔
یہ تینوں اپیل میں پیش ہوئے ہیں۔ واقعات فیصلہ زیر اپیل میں موجود ہیں۔ مضمون کی طرف حکومت کی توجہ پریس برانچ کے ایک عہدیدار نے مبذول کرائی تھی اور چیف سیکرٹری نے قانونی چارہ جوئی کا حکم دیا تھا۔ میں نے فریقین کے فاضل مشیران قانون کو سنا ہے اور مثل کا مطالعہ کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ملزم کے خلاف جرم ثابت نہیں کیا جا سکا اور سزا برقرار نہیں رہ سکتی۔ میرا خیال ہے کہ مضمون زیربحث کو فحش اور خاص طور پر خلاف قانون قرار نہیں دیا جا سکتا۔
ملزمین رسالہ سے اپنا تعلق مانتے ہیں۔ اب طے کرنے کے لئے فقط ایک سوال ہے کہ کہانی فحش اور خصوصاً خلاف قانون ہے یا کہ نہیں۔ اس سلسلے میں کئی نکتے پیدا ہوتے ہیں اولاً یہ کہ لفظ ’فحش‘ سے ہم کیا مراد لیتے ہیں۔ دوم یہ کہ یہ ایسا معاملہ ہے جس میں ماہرین کی شہادت پیش کی جا سکتی ہے۔ سوم یہ کہ آیا مضمون زیربحث قابل اطلاق معیاروں کے مطابق فحش قرار دیا جا سکتا ہے؟ میں نے قانون جرائم ایڈیشن ۱۹۴۵ء میں رتن لال وغیرہ کی کومنٹری دیکھی ہے اور وہاں اٹھائے ہوئے سوالوں پر فریقین کے پیش کردہ دلائل پر غور کیا ہے۔
فحاشی کی جانچ کا معیار وہاں یہ مقرر کیا گیا ہے، ’’آیا فحاشی کے تحت الزام زدہ مضمون میں ان لوگوں کے اخلاق بگاڑنے اور ان کو بری ترغیب دینے کا میلان ہے جن کے ذہن ایسے غیر اخلاقی اثرات قبول کرنے کے لئے تیار ہیں؟ اور جن کے ہاتھوں میں اس قسم کی تصنیف عوام کے اخلاق کے لئے ضرر رساں ہے اور اندازہ کیا جائے کہ وہ جن کے ہاتھ میں پہنچے گی، ان کے ذہن میں بدچلنی اور بدکاری کا اثر پیدا کرے گی تو یہ ایک فحش اشاعت ہوگی۔ قانون کا منشا ہے کہ اس کو روکے، اگر کوئی تحریر حقیقتاً کسی ایک بھی جنس کے نوجوانوں یا زیادہ عمر کے لوگوں کے اذہان کو انتہائی گندے اور شہوت پرستانہ قسم کے خیالات سمجھائے تو اس کی اشاعت خلاف قانون ہے خواہ ملزم کے پیش نظر کوئی در پردہ مقصد ہی کیوں نہ ہو جو معصوم حتیٰ کہ قابل تعریف ہو۔ کوئی چیز جو شہوانی جذبات کو مشتعل کرے، فحش ہے۔‘‘
پھر ایسے فیصلے بھی ہیں جو قرار دیتے ہیں کہ محض فقروں اور جملوں کو اس لئے معاف نہیں کیا جاتا کہ باقی کی اشاعت ناقابل اعتراض ہے اور کہ یہ کوئی جواز نہیں کہ شائع شدہ مضمون کسی ممتاز مصنف کا لکھا ہوا ہے یا ایسے اسلوب میں لکھا گیا ہے جو آسانی سے ہر ایک کی سمجھ میں نہیں آ سکتا یا یہ کہ اشاعت میڈیکل ہے اور صرف مخصوص گاہکوں کے پاس بیچی جاتی ہے۔ ہمیں نہ صرف تصنیف کی ماہئیت کو بلکہ حاضر معاشرہ کی حالت کو بھی دیکھنا ہے، اگر تصنیف بازار میں آزادانہ مہیا ہو سکتی ہے تو ہمیں یہ طے نہیں کرنا کہ مخصوص یا خواہش سے خریدنے والے گاہک اور پڑھنے والے کون ہیں۔ ہمیں تو صرف یہ دیکھنا ہے کہ آیا یہ عوام تک پہنچ سکتی ہے؟ جن میں دونوں جنس کے جواں سال اور بڑی عمر کے لوگ بھی شامل ہیں۔ پس ہمیں تصنیف کی ماہئیت کا اپنے سماج کی موجودہ حالت کی روشنی میں تعین کرنا ہے۔
میرے خیال میں اس معاملے کو اس مقام پر چھوڑا جا سکتا ہے اور ہمیں اس کی طرف بعد میں رجوع کرنا چاہیئے۔ جب ہم اس مسئلے پر غور کر چکیں کہ آیا یہ سوال ماہروں کی رائے سے طے ہو سکتا ہے یا نہیں۔ جہاں تک اس امر کا تعلق ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ معاملہ ماہروں کی رائے سے ہرگز طے پانے والا نہیں۔ ہمیں اس پر غور نہیں کرنا کہ اس کے متعلق کچھ خاص اور ممتاز ادیب کیا رائے قائم کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف ہمیں یہ پڑتا لنا ہے کہ پڑھنے والوں پر عام طور پر تحریر و تصنیف کا کیا رد عمل ہوگا۔
اگر میرا یہ خیال درست ہے تو فاضل عدالت ماتحت کی ریکارڈ کردہ شہادتوں کا کوئی حصہ اس نکتے کے لحاظ سے قابل قبول نہیں رہ سکتا، اگر بفرض محال ہم حضرات جو فریقین یا عدالت کی طرف سے پیش ہوئے، ان کی شہادت کو عام پڑھنے والوں کی شہادت کی حیثیت سے قبول کریں اور کسی ایک فریق کو خاص اہمیت نہ دیں تو ریکارڈ شدہ شہادت عدالت کو کوئی زیادہ مدد نہیں دیتی۔ گواہوں کی ایک جماعت نے یہ کہا ہے کہ زیربحث مضمون انتہائی فحش ہے۔ دوسری جماعت نے اس کے خلاف بیان دیا ہے اور اسے ایک ایسا فن پارہ قرار دیا ہے جس میں کوئی بھی غیر اخلاقی چیز نہیں۔
غور کرنے پر یہ پتہ چل سکتا ہے کہ یہ رائے عین قدرتی فرق ہے۔ مختلف طبقوں کے پڑھنے والوں کا رد عمل مختلف ہوتا ہے۔ جب تک ہم جانچ کا ایک معیار مقرر نہ کریں، جس کو پیش نظر رکھا جائے، اتفاق رائے پیدا نہیں ہو سکتا اور یہ بھی ظاہر ہے کہ مختلف مزاجوں، عمروں، پیشوں اور مختلف قسم کی تعلیم حاصل کئے ہوئے لوگوں کا رد عمل بھی ضرور مختلف ہوگا اور علاوہ اس کے کہ یہ طے ہے کہ اخلاق ایک اضافی اصطلاح ہے۔ فحاشی کے سوال پر نظریات ضرور ایک دوسرے سے مختلف اور بہت نمایاں حد تک مختلف ہوں گے۔ میری رائے میں صحیح بات یہ ہے کہ اس مسئلے کو اس ’افسانوی آدمی‘، ’پبلک کے ایک عام رکن‘ کے نقطۂ نظر سے جانچنا چاہیئے۔ یہ طے کر چکنے کے بعد ہمیں یہ دیکھنے کے لئے زیربحث مضمون پر غور کرنا ہے کہ یہ ہمارے سماج کے مسلمہ اخلاقی نظریات کے خلاف کہاں تک جاتا ہے۔
اس موقعہ پر مجھے زیراپیل فیصلے کے ایک غلط مفروضے اور گمراہ کرنے والی دلیل کی طرف اشارہ کرنا ہے۔ فاضل مجسٹریٹ نے اس بیان سے ابتدا کی کہ ’فحاشی‘ کی اصطلاح اس ماحول کے ساتھ متعلق ہے جس میں اس کے متعلق فیصلہ کیا جانا ہے۔ اس نے کہا کہ مختلف قوموں اور سوسائٹیوں کے معیار مختلف ہو سکتے ہیں۔ یہاں تک وہ درست تھا۔ اس نے غلطی وہاں کی جب اس نے یہ سمجھا کہ پاکستان کے مروجہ اخلاقی معیار قرآن پاک کی تعلیم کے سوا اور کہیں سے زیادہ صحیح طریقے پر معلوم نہیں ہو سکتے۔ پھر وہ یہ کہتا ہے کہ اس کے مطابق ’غیر شائستگی اور شہوت پرستی شیطان کی طرف سے ہے۔ ‘
اس میں شک نہیں کہ یہ ہمارا آدرش ہے لیکن سوال یہ نہیں ہے، بلکہ سوال یہ ہے کہ ہمارے سماج کی اصلی حالت کیا ہے۔ جیسا کہ ظاہر ہے ہم نے اپنا نصب العین ابھی تک حاصل نہیں کیا۔ اپیل کرنے والوں کو اس کے مطابق جانچنا چاہیئے جس طرح کہ ہماری سوسائٹی ہے نہ کہ اسی طرح جیسا کہ اسے ہونا چاہیئے۔
جب ہم سوچتے ہیں کہ کیسی کیسی مطبوعات مارکیٹ میں موجود ہیں جن پر کوئی احتساب قائم نہیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ زیربحث مضمون کہیں کم قابل اعتراض ہے۔ متعدد ’اسراری‘ مطبوعات کی اشاعت کے خلاف کوئی پابندی نہیں جن سے زیادہ اور کوئی چیز فحش نہیں ہو سکتی۔ سینماؤں میں ’تماشاؤں‘ کی نمائش پر کوئی احتساب نہیں جو زیربحث مضمون سے کچھ کم قابل اعتراض نہیں ہوتے، اگر ہمیں مغربی تہذیب کو اپنانا اور اس کو پسند کرنا ہے جیسا کہ ہم کر رہے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ ہم ایسی تحریر پر جیسی کہ ہمارے سامنے موجود ہے، معقول طور پر فحاشی کا اعتراض نہیں کر سکتے۔ یہ تو اس تہذیب کا لازمی نتیجہ ہے اور حسب معمول اس کے علاوہ کچھ نہیں۔
چوما چاٹی اور بغل گیری ایک ایسی چیز ہے جو ہر روز سینماؤں میں پیش کی جاتی ہے۔ بدکاری وہ عام اور بنیادی زمین ہے جس پر ’سچی کہانیاں‘ اور دائمی مثلثیں استوار کی جاتی ہیں۔ درحقیقت یہی تمام انگریزی اور مغربی ناولوں کا بنیادی پلاٹ ہے۔ اگر ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا تو مجھے کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ ہم کیوں ان نوجوانوں پر سختی کریں۔
زیربحث کہانی رسالے کے صفحہ ۸۸ سے لے کر ۹۳ تک چھپی ہے۔ قصہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ ایک خاص شخص کا جس کا نام ایشر سنگھ تھا، ایک خاص عورت کلونت کور کے ساتھ ناجائز تعلق تھا۔ اس نے فسادات کے دوران میں ایک مکان میں چھ آدمیوں کو قتل کر دیا تھا اور ایک خوبصورت لڑکی کو وہاں سے اٹھا لایا تھا۔ اس نے اس لڑکی کے ساتھ زنا بالجبر کرنے کی کوشش کی، لیکن اسے پتا چلا کہ لڑکی مر چکی ہے۔ ’ٹھنڈا گوشت‘ ہے۔ اس کہانی کے مطابق اس انکشاف نے ایشر سنگھ پر ایسا اثر کیا اور اس کے شہوانی جذبات کو اتنا سن کر دیا کہ جب وہ بعد میں کلونت کور کے پاس گیا تو وہ اس قابل نہیں تھا کہ اس کے ساتھ سو سکے۔ حالانکہ اس نے اس مقصد کے لئے ابتدائی اقدام اٹھائے تھے۔
اس میں یہاں وہاں کچھ ناشائستہ اصطلاحیں اور کچھ قابل اعتراض الفاظ موجود ہیں اور کچھ سوقیانہ گالیاں بھی۔۔۔ بالکل اسی قسم کی جو ہماری سوسائٹی کے نچلے طبقے میں عام ہیں۔ اب کسی مضمون کی ماہیت پر غور کرنے کے لئے آدمی کو کئی اصطلاحات اور تصریحات کو زیرنظر رکھنا پڑے گا۔ مثلاً چند ایک کا نام لیں تو ایک مضمون ’باذوق‘ یا ’بدذوق‘، ’غیر مناسب‘ یا ’سوقیانہ‘، ’ ناشائستہ‘ یا ’فحش‘ ہوسکتا ہے۔ اتنے تدریجی رنگوں کے امتزاج کو ایک دوسرے سے الگ ہٹا کر اس مضمون کو جسے فحش قرار دیا جاتا ہ ہو، قطعی طور پر ’غیرشائستہ‘، ’غیراخلاقی ‘، ’ضرررساں‘ اور ’بہت کچھ اور‘ ہونا چاہیئے لیکن زیادہ سے زیادہ جو میں اس مضمون کے متعلق کہوں گا، وہ یہ ہے کہ یہ سوقیانہ اور ناشائستہ ہے۔
فاضل پی پی ایس نے کسی ایسے خاص قابل اعتراض پیروں کی طرف اشارہ نہیں کیا جس کو وہ یقینی طور پر ’فحش ‘قرار دیتا۔ کسی شخص نے کہانی کی چند سطروں پر نشان لگائے ہیں لیکن وہ ایسی ہی ہیں جن کے متعلق میں پیشتر ذکر کر چکا ہوں اور ان کو دوبارہ پیش کرنے سے کوئی مفید مقصد حاصل نہیں ہوگا۔ مجھے اس لئے فاضل عدالت ماتحت سے اختلاف ہے، لیکن میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ مجھے اس مضمون سے اتفاق ہے۔ میں اسے ’فحش‘یا زیادہ قابل اعتراض نہیں سمجھتا۔ چنانچہ میں اپیل منظور کرتا ہوں اور تینوں اپیل کرنے والوں کو بری کرتا ہوں۔ وہ پہلے ہی ضمانت پر ہیں۔ جرمانہ اگر ادا کیا گیا ہے تو وہ سارے کا سارا واپس دیا جائے۔
ایک لطیفہ سنیئے۔ گیارہ جولائی کی صبح کو نذیر احمد چودھری مالک ’نیا ادارہ‘ اور مدیر ’سویرا‘ جو دوسرے ترقی پسندوں کے ساتھ مل کر مجھے رجعت پسند قرار دے چکے ہیں اور حلف اٹھا چکے ہیں کہ میری کوئی تحریر اپنے ’سویرا‘ میں شائع نہیں کریں گے، تشریف لائے۔ بغل گیر ہو کر بڑی گرم جوشی سے مبارکباد دی اور کہا، ’’منٹو صاحب، اب ’ٹھنڈا گوشت‘ عنایت فرما دیجئے۔ میں ’نمرود کی خدائی‘ میں شامل کر لوں۔‘‘ میں چودھری صاحب کی اس درخواست پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔
چند دن ہوئے کوہاٹ سے ایک صاحب آفیسر کیڈٹ مظہر علی خاں کا خط موصول ہوا، ’’مجھے امید ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ میں کون ہوں۔ ریاض صاحب کی دکان پر آپ سے چند ملاقاتوں ہی نے مجھے آپ کا گرویدہ بنا دیا۔ بہت دن ہوئے میں نے اخبار میں پڑھا تھا کہ آپ کو ’ٹھنڈا گوشت‘ سے نجات مل گئی ہے۔ فرصت کم ہونے کے باعث آپ کو مبارکباد کا خط نہ لکھ سکا۔ اب گو مبارکباد بہت دیر سے ہے، لیکن پھر بھی آپ قبول فرمائیں۔ مجھے پکا یقین ہے کہ ایسی مخالفتوں کے باوجود آپ کے مداح بڑھتے ہی جائیں گے۔ سنا ہے چودھری محمد حسین صاحب جو آپ کے ساتھ اکثر نوک جھوک کرتے رہتے تھے، اس دنیا ہی سے چل بسے۔ اب تو معاملہ کچھ بے مزہ سا ہو گیا، لیکن دنیا میں سر پھروں کی کمی نہیں۔ کوئی اور صاحب ان کی جگہ ضرور سنبھال لیں گے۔‘‘
مجھے چودھری محمد حسین صاحب کی وفات کا بہت افسوس ہے۔ خدا ان کو غریقِ رحمت کرئے۔ اب کہ وہ اس دنیا میں نہیں، میں ان کے متعلق کچھ کہنا نہیں چاہتا۔ ان کی جگہ اگر کوئی دوسرا سنبھال لے گا تو میں کہوں گا،
سر دوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |