زرگر و حداد خوش ہوں وہ کریں تدبیر ہم
زرگر و حداد خوش ہوں وہ کریں تدبیر ہم
طوق زر تم پہنو پہنیں آہنی زنجیر ہم
اور دیوانوں سے رکھتے ہیں ذرا توقیر ہم
ڈالتے ہیں آپ اپنے پاؤں میں زنجیر ہم
کفر و دیں کے قاعدے دونوں ادا ہو جائیں گے
ذبح وہ کافر کرے منہ سے کہیں تکبیر ہم
یوں ہی خوش کرتے ہیں دل اپنا امید وصل میں
کھینچتے ہیں ایک جا اپنی تری تصویر ہم
آ گیا جس دن خیال جوشش دیوانگی
چاک کر ڈالیں گے اپنا نامۂ تقدیر ہم
سن تو او ظالم بھلا یہ بھی کوئی انصاف ہے
لائق الطاف اعدا قابل تعزیر ہم
وصل میرے ان کے ہوگا کچھ اب اس میں شک نہیں
کہہ دو آمیں دے چکے اس خواب کی تعبیر ہم
روز کا جھگڑا اٹھائے کون کر لیتے ہیں آج
امتحان کاوش قاتل تہ شمشیر ہم
کیوں نہ مستغنی رہیں فضل خدا سے اے نسیمؔ
رکھتے ہیں ملک سخن کی واقعی جاگیر ہم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |