زلف جاناں پہ طبیعت مری لہرائی ہے

زلف جاناں پہ طبیعت مری لہرائی ہے
by شیر سنگھ ناز دہلوی
319257زلف جاناں پہ طبیعت مری لہرائی ہےشیر سنگھ ناز دہلوی

زلف جاناں پہ طبیعت مری لہرائی ہے
سانپ کے منہ میں مجھے میری قضا لائی ہے

آج مے خانے پہ گھنگھور گھٹا چھائی ہے
ایک دنیا ہے کہ پینے کو امڈ آئی ہے

زلف شب رنگ کا ہے عکس یہ پیمانے میں
یا پری کوئی یہ شیشے میں اتر آئی ہے

تو بتا ناوک جاناں تری کیا ہے نیت
خنجر یار نے تو سر کی قسم کھائی ہے

حور و غلماں مری آنکھوں میں سمائیں کیوں کر
کس میں تیری سی ادا تیری سی رعنائی ہے

کچھ مداوا نہ ہوا تم سے مریض غم کا
کیا اسی برتے پہ دعوائے مسیحائی ہے

سرخی خون شہیداں کی جھلک ہے اس میں
دست قاتل پہ غضب رنگ حنا لائی ہے


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.