زلف جاناں پہ طبیعت مری لہرائی ہے
زلف جاناں پہ طبیعت مری لہرائی ہے
سانپ کے منہ میں مجھے میری قضا لائی ہے
آج مے خانے پہ گھنگھور گھٹا چھائی ہے
ایک دنیا ہے کہ پینے کو امڈ آئی ہے
زلف شب رنگ کا ہے عکس یہ پیمانے میں
یا پری کوئی یہ شیشے میں اتر آئی ہے
تو بتا ناوک جاناں تری کیا ہے نیت
خنجر یار نے تو سر کی قسم کھائی ہے
حور و غلماں مری آنکھوں میں سمائیں کیوں کر
کس میں تیری سی ادا تیری سی رعنائی ہے
کچھ مداوا نہ ہوا تم سے مریض غم کا
کیا اسی برتے پہ دعوائے مسیحائی ہے
سرخی خون شہیداں کی جھلک ہے اس میں
دست قاتل پہ غضب رنگ حنا لائی ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |