زلف کا کیا اس کی چٹکا لگ گیا
زلف کا کیا اس کی چٹکا لگ گیا
زور دل کے ہاتھ لٹکا لگ گیا
تار مژگاں پر چلا جاتا ہے اشک
کام پر لڑکا یہ نٹ کا لگ گیا
چشم و ابرو پر نہیں موقوف کچھ
جان من دل جس کا اٹکا لگ گیا
جام گل میں کیوں نہ دے شبنم گلاب
صبح دم غنچے کو چٹکا لگ گیا
منزل گم کردہ اک میں ہوں نصیرؔ
راہ سے جو کوئی بھٹکا لگ گیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |