زلف کو تھا خیال بوسے کا
زلف کو تھا خیال بوسے کا
خط نے لکھا سوال بوسے کا
دوہرے پتوں کے زیر سایہ ہوا
سب قلم بند حال بوسے کا
چشمک خال رخ نے صاف کہا
ہے تبسم مآل بوسے کا
سبزۂ نو دمیدہ نے مارا
گرد رخسار جال بوسے کا
رہ گیا تیرے مکھڑے پر باقی
اب مکاں خال خال بوسے کا
ہو غضب اپنے بال نوچ لیے
ہے یہ سارا وبال بوسے کا
تیرے غصے سے اب کوئی انشاؔ
چھوڑتا ہے خیال بوسے کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |