زمانہ سخت کم آزار ہے بہ جان اسدؔ
زمانہ سخت کم آزار ہے بہ جان اسدؔ
وگرنہ ہم تو توقع زیادہ رکھتے ہیں
تن بہ بند ہوس در ندادہ رکھتے ہیں
دل ز کار جہاں اوفتادہ رکھتے ہیں
تمیز زشتی و نیکی میں لاکھ باتیں ہیں
بہ عکس آئنہ یک فرد سادہ رکھتے ہیں
بہ رنگ سایہ ہمیں بندگی میں ہے تسلیم
کہ داغ دل بہ جبین کشادہ رکھتے ہیں
بہ زاہداں رگ گردن ہے رشتۂ زنار
سر بہ پاۓ بت نا نہادہ رکھتے ہیں
معاف بے ہودہ گوئی ہیں ناصحان عزیز
دل بہ دست نگارے ندادہ رکھتے ہیں
بہ رنگ سبزہ عزیزان بد زباں یک دست
ہزار تیغ بہ زہر آب دادہ رکھتے ہیں
ادب نے سونپی ہمیں سرمہ سائی حیرت
ز بن بستہ و چشم کشادہ رکھتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |