زمانہ قدیم میں کبوتروں کی ڈاک
(۱) اثر خامۂ مولوی ابوالکلام محی الدین احمد آزادؔ دہلوی مقیم کلکتہبسکہ دارد اشتیاق دیدن مطلوب مابال بر بال کبوتر برد مکتوب ماریل کی حیرت انگیز ایجاد نے جن لوگوں کو کسی خبر کے جلد حاصل کرنے کا خوگر بنا دیا ہے وہ تعجب میں ہوں گے کہ زمانۂ قدیم میں جب کہ نہ تو یہ قوتیں مجتمع ہوئی تھیں اور نہ یہ ڈاک کا انتظام تھا، ضروری خبریں شہر بشہر کیسے پہنچتی ہوں گی؟ جنگ کے موقعوں میں کس طریق سے کام لیا جاتا ہوگا؟ فون کی ضرورت، اسباب رسد کی کمی، آلات حرب کی غیر موجودگی، ان سب باتوں کی جن کی فی الوقت ضرورت ہوا کرتی ہے شہر میں کیسے خبر ہوتی ہوگی؟ فتح و ظفر، جن کا مدار انہیں باتوں کی موجودگی پر ہے، کسی فریق کو کیسے نصیب ہوتی ہوگی؟ ضرور ہے کہ فتح کا مدار اتفاقات پر ہوگا۔ یا جن فریق کے پاس ان چیزوں کی زیادہ کمی ہوتی ہوگی وہ ہی شکست کا دل شکن منہ دیکھتا ہوگا مگر ہم انہیں زمانہ قدیم کی تاریخوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں جن کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قدرت نے اس زمانے کی ضرورتوں کے موافق اسی قسم کے ذرائع پیدا کر دیے تھے اور ان سے اسی طرح کے کام نکلتے تھے جو آج اس زمانے کی رفتار سے تیز چلنے والی ریل سے عموماً نکلتے ہیں۔ تاریخ عالم کے دیکھنے والے اور افسانہ عالم کے سننے والے خوب جانتے ہیں کہ دنیا کے کارخانے اسی روش پر چلتے آئے ہیں۔ ایک زمانے میں اس زمانے کی ضرورتوں کے موافق کوئی چیز رفع ضرورت کا ذریعہ سمجھی جاتی تھی اور آگے چل کر کسی دوسری چیز کی ایجاد اسے فضول ٹھہرا دیتی تھی۔ اور اس وقت اسی قسم کی ضرورتیں پیدا ہو جاتی تھیں۔ دنیائے تاریک میں ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے کہ بحری سفر کے لیے کوئی ذریعہ نہ تھا اور دنیا کی ضرورتیں بھی رفع ہوتی تھیں۔ پھر ایک زمانہ ایسا آیا کہ اس بحری سفر کا ایک آسان ذریعہ پیدا ہوا جسے کشتی سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کی دنیا میں ضرورتیں پیدا ہو گئیں۔ پھر اس زمانے بعد کشتی میں اقسامی تغیرات ہوتے رہے اور اپنی اپنی ضرورتیں پیدا کرتے رہے۔ رفتہ رفتہ ایک وہ زمانہ آیا کہ کشتی نے اپنی وسعت میں ترقی کی۔ اور حالت ترقی کا نام اہل دنیا نے جہاز رکھا۔ اس کے بعد یورپ نے اجتماع عناصر سے اسٹیم کا راز دریافت کرکے دخانی جہاز (اسٹیمر) جاری کیا۔ اب وہی جہاز جس کی وسعت اور تیز رفتاری پر زمانہ تعجب کرتا تھا، جس کی ایجاد نے تمام متمدن دنیا میں تہلکہ مچا دیا تھا، فضول خیال کیا جانے لگا اور ہر طرف ملک میں اسٹیمر کا عالمگیر رواج ہو گیا۔ اب سوچو کہ یہ کیوں ہوا؟ کس لیے ہوا؟ بس اس کا یہی جواب ہے کہ قدرت نے دنیا کے کارخانے ہی اس طریق پر رکھے ہیں اور اسی میں نظام عالم کا بڑا بھاری راز ہے۔ پچھلے زمانے میں جس حیرت ناک طریقے سے جلد خبر کے پہنچ جانے کا ذریعہ پیدا کیا گیا تھا، واقعی بات یہ ہے کہ وہ ریل سے کہیں زیادہ تعجب خیز ہے کیونکہ ریل کی ایجاد کتنی ہی حیرت انگیز کیوں نہ ہو مگر فی نفسہ ریل اس قابل نہیں ہے کہ اسے عقل تعجب کی نگاہ سے دیکھے۔ چند قوتوں کا اجتماع عجیب و غریب سرعت پیدا کر سکتا ہے۔ یہ کوئی تعجب کرنے والی بات نہیں ہے۔ مگر ایک ایسی جاندار مخلوق جس میں نہ تو عقل ہو، نہ فراست ہو، نہ قوت ممیزہ ہو، ایسے ایسے کام کرے جو انسانی قواعد کے شایان ہیں، نہایت ہی تعجب خیز امر ہے! اور اس کام کے دریافت کرنے والے کی عجیب و غریب اور حیرت ناک فراست اور خداداد قوت عقلی ثابت ہوتی ہے۔ کسی ایسے زمانے میں کہ بظاہر کوئی سامان انتقال ذہنی کا نہ ہو، کسی ذہنی چیز کی ایجاد تعجب خیز ہے۔ نہ کہ ایسے زمانے میں کہ اس کے سیکڑوں اسباب موجود ہوں اور ایجادات نے اس راستے کی داغ بیل ڈال دی ہو! جس حیوان کے ذریعے سے یہ انسانی کام لیا گیا تھا وہ ہمارے عربک لٹریچر میں انبیاء الطیور، خطماء الطیور، ملائکۃ الملوک 1 کے مقدس ناموں سے موسوم ہے اور عام زبانوں میں اسے’’کبوتر‘‘ کہتے ہیں۔ جس کی ظاہری صورت میں کوئی وجہ انتقال ذہنی کی نہیں پائی جاتی۔ کیا کوئی شخص ’’کبوتر‘‘ کی بھولی بھالی صورت دیکھ کر یہ کہہ سکتا ہے کہ اس مساوی صورت میں اس قدر فراست کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا گیا ہے؟ موجود کی اس لیاقت پر عش عش کرنا چاہیے۔ پچھلے زمانے میں ان کبوتروں کی ڈاک سے شاہان وقت اور امرائے زمانہ نے اس قدر فوائد حاصل کئے ہیں کہ غالباً آج کل تمام دنیا کے کبوتروں کی تجارت میں اس قدر زمانہ منتفع نہ ہوتا ہوگا۔ تاریخ کی کتابوں میں یہ مثل اور واقعات کے تاریخی حیثیت سے لکھا جاتا ہے اور علم ادب کی کتابیں اس حیوان کی صفات سے بھری پڑی ہیں۔ اس وقت ہمارے سامنے علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی عجیب و غریب کتاب حسن المحاضرہ نے اخبار مصر و القاہرہ اور علامہ ابن فضل اللہ دمشقی کی التعریف بالمصطلح الشریف رکھی ہوئی ہیں اور ہم ان کی ورق گردانی سے اپنی انتشار طبیعت کی گردش کو دور کر رہے ہیں۔ ان دونوں کتابوں میں کبوتروں کی ڈاک کی پوری کیفیت اور احوال نہایت ہی دلچسپ طریقے سے تحریر کئے گئے ہیں۔ ہم ناظرین کی دلچسپی کے لیے ان دونوں مستند کتابوں اور نیز بعض اور ادب کی معتبر کتابوں سے (مثل مصنفات قاضی محی الدین اور کاتب عماد وغیرہ وغیرہ کے اور بعض مغربی تصنیفات سے) کچھ ان کا حال ترجمہ کر کے ترتیب دیتے ہیں جس سے ہماری نئی روشنی کے پرستاروں کو معلوم ہوگا کہ ’’ایجادات‘‘ کا سلسلہ کچھ اس نئے زمانے ہی پر موقوف نہیں ہے بلکہ پچھلے زمانوں میں بھی حیرت انگیز ایجادات کا سلسلہ دیکھنے والوں کو متعجب بنا چکا ہے۔ ہم کو خوف ہے کہ کوئی صاحب ہمارے اس بیان کو شاعرانہ خیال پر محمول نہ فرمائیں کیوں کہ بلبل کے نغموں اور کبوتر کی نامہ بری کو حضرات شعرا نے بالخصوص بہت چھکایا ہے اور ان کی دیوان اول سے آخر تک اس کے بیانات سے بھرے پڑے ہیں۔ مگر نہیں! اس وجہ سے کسی ایسے تاریخی واقعے کی صحت میں جس سے تمام مستند تاریخیں مالا مال ہوں کچھ فرق نہیں آ سکتا۔ کیا لیلیٰ مجنوں کے سچے نالوں کو ہم اس وجہ سے کہ شاعر انہیں زیادہ تر اپنی شعری ضرورتوں کے موقعوں پر پیش کیا کرتے ہیں، فرضی ٹھہرائیں گے؟ اور علم ادب عربی کی کتابیں اٹھاکر اور ان میں شاعری کی حیثیت سے خاندان برا مکہ کی باتیں پڑھ کر بوجہ تعلق شعری کے ان کو غلط کہیں گے؟ فافھموا و لاتکونوا من الغافلین۔ اس کا موجد کون ہے؟ اس امر کا پتہ لگانا دراصل نہایت مشکل ہے کہ اس کا موجد کون ہے؟ مغربی اور مشرقی تاریخیں اس بارے میں بالکل خاموش ہیں۔ ہاں اسلامی تاریخ اس امر کا ضرور پتہ دیتی ہے کہ اسلامی سلسلۂ سلطنت میں سب سے پہلے نور الدین محمود زنگی کے وقت میں اس کی ابتدا ہوئی اور گویا اسلام میں اس کی داغ بیل ڈالنے والا نور الدین ٹھہرا۔ بعض تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جس زمانے میں شام اور مصر پر یورپ کے متواتر حملے ہو رہے تھے اور بے خبری کے سبب سے موقع پر کسی قسم کی شاہی فوج نہیں پہنچ سکتی تھی، اس وقت نور الدین محمود زنگی نے کبوتروں کی ڈاک اپنے تمام قلمرو میں قائم کی۔ اوران کے ذریعے سے خبر رسانی کا انتظام کیا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ یورپ کی دست اندازیوں سے پہلے سلطان کو خبر ہو جایا کرتی تھی اور وہ موقع پر فوج بھیج کر اس کا کافی انسداد کر دیتا تھا۔ اس طریقے کے برتنے سے تھوڑے ہی دنوں میں سلطان کی سلطنت امن و امان میں آ گئی اور ہر طرف اس کے انتظام کا ڈنکے بجنے لگے۔ لیکن اب بحث طلب یہ امر ہے کہ سلطان نے کس سن میں یہ انتظام کیا؟ جس سے یہ نتیجہ نکل سکے کہ اسلام میں کس سن سے اس ڈاک کی ابتدا ہوئی۔ مورخین کو اس میں اختلاف ہے مگر ہمارے نزدیک سب سے زیادہ مستند قول یہ ہے کہ ’’یہ انتظام ۵۶۷ھ میں ہوا۔‘‘ پس اسلام میں اس طریقہ کو رائج کرنے والا جسے اضافی حیثیت سے موجد کہنا چاہیے، ’نور الدین محمود زنگی‘ ہے۔ نورالدین کے بعد مشہور اسلامی فاتح صلاح الدین کے زمانے میں بھی اس سے کام لیا گیا۔ چنانچہ محاصرہ عکا کے زمانے میں بھی اہل شہر اس طریق سے لشکر تک خبریں پہنچایا کرتے تھے۔ اس زمانے کا مشہور پیراک ’’عیسیٰ‘‘ جب کچھ روپیہ یا مال واسباب لے جایا کرتا تو رسید اہل شہر کو کبوتروں کے ذریعہ سے ارسال کر کے اطمینان دلا دیتے تھے، اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ کبوتروں پر کس قدر اعتماد تھا۔ بغداد میں بھی خلیفہ الناصر الدین اللہ نے ادھر خاص توجہ کی تھی اور ایک محکمہ کبوتروں کی غور و پرداخت کے لئے قائم کیا تھا۔ مصر میں جس وقت اس کی قسمت کی باگ فاطمی خلفاء کے ہاتھ میں تھی، کبوتروں کی ڈاک کا بہت رواج تھا۔ ان لوگوں نے بہ نسبت اور بادشاہوں کے ادھر زیادہ توجہ کی تھی۔ السیاتی انشاء اللہ تعالیٰ۔ کبوتروں کی تعلیم اور ان کی غور و پرداخت ہر ایک قسم کے کبوتروں میں نامہ بری کے لئے ’’موصل‘‘ کے کبوتر سب سے اعلیٰ گنے جاتے تھے اور ان کو مناسیب کہتے تھے۔ اور پھر ان کبوتروں میں خاص خاص نسل کے کبوتر عمدہ اور قیمتی گنے جاتے تھے۔ چنانچہ بغداد میں خلیفۂ ناصر کے وقت میں ایک ایک موصلی عمدہ کبوتر ہزار ہزار دینار تک فروحت ہوتا تھا۔ ان کے خاص خاص شجرہ نسب ہوا کرتے تھے اور نسب نامے بڑی تحقیق کے ساتھ لکھے جاتے تھے۔ ان کی غور پرداخت کے لئے خاص ایک وسیع محکمہ قائم کیا گیا تھا (یہ محکمہ۵۹۱ ہجری میں قائم کیا تھا) جن میں ان کی تعلیم کے لئے اس فن کے جاننے والے مقرر کئے جاتے تھے۔ اور اس محکمہ میں اس قسم کی کتابیں تصنیف ہوئی تھیں، جن میں ان کے نسب نامے اور طریقہ تعلیم وغیرہ بطور دستورالعمل کے درج ہوں۔ چنانچہ قاضی محی الدین بن ظاہر نے ایک کتاب ان کے عادات، خصائل اور طریق پیغام رسانی پر لکھی ہے جس کا نام تمائم الحاتم ہے۔ الغرض ان کی غور پرداخت کی طرف خاص توجہ تھی اور بڑی محنتوں اور صرف کثیر کے بعد کہیں ان سے مفید کام لئے جاتے تھے۔ (۲) اثر خامۂ مولوی ابو الکلام محی الدین احمد آزادؔ دہلوی، مقیم کلکتہڈاک کا یہ طریقہ تھا کہ تمام قلمرو میں تقریباً تیس چالیس میل کے فاصلے پر ان کی چوکیاں مقرر کی گئی تھیں۔ ہر چوکی میں ایک عمدہ کبوتر خانہ بنا کر ان میں کبوتروں کے رہنے کی جگہ بنائی گئی تھی۔ وہاں ایک منشی مقرر کیا گیا تھا۔ جب کسی قسم کی خبر اس تک پہنچتی۔ فوراً وہ ایک کاغذ پر لکھ کر کبوتر کے بازو پر باندھ دیتا تھا اور کبوتر وہاں سے نہایت تیز اڑتا ہوا دوسری چوکی پر پہنچتا تھا۔ وہاں کا منشی فوراً اس کے بازو سے خط کھول کر دوسرے کبوتر کے بازو پر باندھ دیتا تھا۔ وہ وہاں سے اڑ کر تیسری چوکی پر آتا اور وہاں سے پھر اسی طرح چوکی بہ چوکی ہوتے ہوئے قلیل عرصے میں خبر منزل منقصود تک پہنچ جاتی۔ اور اگر کبھی مختلف دو خبروں کے سبب سے یا زیادتی خبر کے سبب سے دو کبوتروں پر تقسیم کر کے ایک ساتھ بھیجے جاتے تو ایک دوسرے کی خبر دونوں کبوتروں کے خطوں میں دے دی جاتی تھی۔ اس سے مقصود یہ تھا اگر جانے میں کسی وجہ سے دوسرے کبوتر کو دیر ہو جائے تو اس کا انتظار کیا جائے۔ خبر لکھنے کا کاغذخبر لکھنے کا خاص کاغذ ہوتا تھا۔ جو اپنی ساخت میں سبک اور ہلکا ہوتا۔ اس مخصوص کاغذ کا نام ’’لسان الخلق‘‘ میں ’’ورق الطیر‘‘ رکھا گیا تھا، اور اسی نام سے وہ تمام قلمرو میں مشہور تھا۔ لکھنے کا یہ طریقہ تھا اور کیا اچھا طریقہ تھا کہ ابتدا میں بجائے بسم اللہ الخ کے لکھنے کے بسم اللہ پڑھ لیا جاتا تھا۔ کیونکہ ہر حیوان کا قاعدہ ہے کہ اس پر جس قدر کم بوجھ ہوتا ہے اسی قدر وہ تیز رفتار ہوتا ہے۔ برخلاف اس کے چرند پرند کہ انہیں تو بوجھ فطرتاً نہ عادی ہونے کے ذرا بوجھ بھی چلنے پھرنے میں حائل ہوتا ہے۔ اس لیے لکھائی، کاغذ، سیاہی ہر ایک امر میں اس امر کا خیال کیا جاتا تھا کہ اس میں زائد باتیں اور فضول رسوم کی پابندی نہ کی جائے۔ بلکہ صرف مطلب نہایت اختصار کے ساتھ لکھ دیا جائے۔ چنانچہ اسی لیے بسم اللہ نہیں لکھی جاتی تھی۔ ہاں آخر میں نیک فالی کی غرض سے حسبنا اللہ و نعم الوکیل لکھ دیتے تھے اور خط میں آس پاس حاشیہ بھی نہیں چھوڑتے تھے۔ یہ خطوط جس قدر لکھے جاتے تھے بادشاہ وقت کو لکھے جاتے تھے۔ اس لیے ایشیائی طریق تحریر کے موافق ضرور تھا کہ القاب و آداب اور خوشامدانہ الفاظ ابتدا میں لکھے جاتے۔ مگر نہیں! وہاں یہ طریقہ ترک کر دیا گیا تھا اور بجائے اس کے صرف ایک چھوٹا سا مگر معزز خطابیہ لفظ سے بادشاہ کو یاد کرتے تھے اور بلا کسی اور بات کے اصل مطلب شروع ہو جاتا تھا اور آخر میں صرف دن اور وقت لکھ دیا جاتا تھا۔ بادشاہ کا یہ حال تھا کہ اپنے ہاتھ سے خط کھول کر پڑھتا تھا۔ خاص شاہی منزل کے اوپر نزد لگاہ کبوتروں کی بنائی گئی تھی۔ حکم تھا کہ جب نزول الطیر ہو اس وقت بادشاہ کو گودہ خواب استراحت اور اکل و شرب ہی میں مشغول کیوں نہ ہو، اطلاع دی جائے۔ ایک منٹ کا وقفہ نہ کیا جائے۔ چوکیوں کا فاصلہکبوتروں کی چوکی کہاں سے کہاں تک تھی اور کس قدر فاصلے پر تھی؟ اس کا صحیح طور سے پتہ نہیں چلتا۔ ہاں التعریف میں لکھا ہے کہ عموماً تیس چالیس میل کا فاصلہ ہوا کرتا تھا۔ کہیں اس سے کم کہیں اس سے زیادہ۔ غالباً راہ کی صعوبتیں ان حدود کی معیار تھی۔ ۷۴۸ ہجری میں (جب کہ کبوتروں کے ڈاک کی حالت تنزل میں تھی) جہاں اور جس قدر فاصلے پر چوکیاں مقرر ہوئی تھیں ان کا ہم ایک نقشہ کتاب التعریف سے مرتب کر کے پیش کرتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ترقی کے وقت کیا کیفیت ہوگی؟ ۷۴۸ ہجری میں کبوتروں کی ڈاک کی چوکیاں(ماخوذ از کتاب التعریف علامہ ابن فضل اللہ رحمۃ اللہ) شمارہ از تا کیفیت۱ قاہرہ اسکندریہ۲ قاہرہ ومیاط۳ قاہرہ سویز۴ قاہرہ بلیسحوالی میں واقع ہے۔ قسطاط سے تیس میل کا فاصلہ ہے۔ ۵ بلیسص الحیہفرات اور دجلہ دو نہریں ہیں ان دونوں کے درمیان میں صالحیہ واقع ہے۔ ۶ صالحیہ قطیا ریگستان مصر میں ایک بستی ہے۔ ۷ قطیا داروہشام کی حد جہاں ختم ہوئی ہے وہاں ہے۔ ۸ دروہ غزہ۹ غزہ بلد الخیل۱۰ غزہ بیت المقدس۱۱ غزہ نابلسیہ شہر بیت المقدس سے چالیس میل کے فاصلے پر ہے۔ ۱۲ غزہ لد۱۳ لد قاقونیہ ایک قلعہ کا نام ہے جو رملہ کے قریب ہے۔ ۱۴ اربل طفس۱۵ طفس صنمین دمشق سے دومیل کے فاصلے پر ہے (اور اس نام کو ’’دو‘‘ سے کتنی رعایت۔) ۱۶ صنمین دمشق۱۷ دمشق بعلبک، بعلبک دو جملوں سے مرکب ہے بعل اور بک سے۔ پہلا بت کا اور دوسرا بادشاہ کا نام ہے۔ آزادؔ۱۸ دمشق قاراقارا، وہی مقام ہے جس کا ذکر عہد جدید اور قدیم میں ہے۔ ۱۹ دمشق قرتبین تدمر سے یہ بھی دو منزل کے فاصلے پر ہے (اور لطف یہ کہ یہ تنبیہ کا صیغہ ہے) آزادؔ۲۰ جبنین صفل ایک پہاڑی پر یہ بستی آباد ہے (سرحد حمص پر) ۲۱ جبنین بیسان اردن کے حوالی میں ہے۔ ۲۲ بیسان اذرعات شام کا ایک قصبہ ہے۔ ۲۳ طفس اذرعات۲۴ قارا حمص۲۵ حمص حماہ۲۶ حماہ معرہ حوالی حلب میں اس سے پندرہ میل کے فاصلے پر ہے۔ ۲۷ معرہ حلب۲۸ حلب بیرہ حوالی حلب میں ایک قلعہ کا نام ہے۔ ۲۹ حلب قلعۃ المسلمین نام سے ظاہر ہے۔ ۳۰ حلب بہسنی فرات کے کنارے پر قریب سمیاطؔ کے ایک قلعہ ہے۔ ۳۱ قویتین تدمر حلب سے چار پانچ دن کا راستہ ہے۔ ۳۲ تدمر سخنہ۳۳ سخنہ قباقب لیکن چنددنوں سے یہاں ڈاک بند ہو گئی ہے۔ ۳۴ قباقبر حبہ قباقب سے رحبہ اور تدمر سے قباقب تک ڈاک جاری ہے۔ کبوتروں کی غور و پرداخت اور ان کے محکمےترتیب کے لحاظ سے تو ہم بہت دیر سے اس عنوان پر پہنچے ورنہ اس عنوان کا بیان سب سے پہلے ہونا تھا۔ کیونکہ جن کبوتروں کے یہ کچھ اوصاف بیان کئے جاتے ہیں ان کے متعلق ہر ایک شخص غور میں ہوگا کہ وہ کیسے ہوں گے؟ ان میں فطرتاً یہ اوصاف ہوں گے؟ یا انہیں سکھایا پڑھایا جاتا ہوگا؟ آخر اس کی صورت کیا ہوگی؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ کبوتر ویسے ہی کبوتر ہوں گے جیسے کہ آج کل شیرازی کبوتر ہوا کرتے ہیں۔ یقیناً ان کی صورت بھی ایسی ہی ہوگی (دیکھو فزیالوجی) مگر شہر موصل میں ایک قسم کے کبوتر ہوتے تھے۔ جن کا نام وہاں کی اصطلاح میں مناسیب ہے۔ یہ کبوتر فطرتاً بہ نسبت اور کبوتروں کے انسان سے مانوس اور چالاک ہوتے ہیں۔ انہیں سے یہ کام لیا جاتا تھا۔ ان کبوتروں کی بھی بہت سی اقسام ہیں۔ خاص خاص نسل اور خاص خاص قسموں کے کبوتر انتخاب کئے جاتے تھے۔ الناصرالدین اللہ نے بغداد میں اور فاطمی خلفاء نے مصر میں جو محکمے قائم کئے تھے ان میں اس قسم کے لوگ خاص طور سے ملازم تھے جو کبوتروں کے اقسام سے واقف اور ان کے شجرۂ نسب کے حافظ تھے۔ خاص نسل کے عمدہ کبوتر ہزار ہزار دینار تک فروخت ہوتے تھے اور محکمہ انہیں بخوشی خرید کرتا تھا۔ اس قسم کی کتابیں تالیف کی گئی تھیں جن میں ان کے نسب نامے، انسانی انساب کی طرح مشجر لکھے جاتے تھے۔ اور ان کے موافق ان کی غور و پرداخت کی جاتی تھی۔ اس کے بعد کبوتروں کو اڑا اڑا کر اور تعلیم یافتہ کبوتروں کے ہمراہ پھرا کر سکھایا جاتا تھا اور ان کی چالاک طبیعت فوراً سیکھ جاتی تھی۔ پچھلے زمانے میںسلاطین وقت نے اس سے بڑے بڑے فوائد حاصل کئے ہیں اور بہت سے ملکی امور میں ان سے مدد لی ہے۔ جس زمانے میں کہ نور الدین سلطان کے تمام مقبوضات پر یورپ کے حملات کا سیلاب جاری تھا اور اس کے متعلق خیال کیا گیا تھا کہ تھوڑے ہی دنوں میں یہ مہلک سیلاب تمام سلطنت کو بہا کر لے جائےگا، اس وقت ان ہی کبوتروں کے باعث تمام سلطنت اس سیلاب عظیم سے محفوظ ہو گئی اور بر وقت مدد پہنچ جانے کے سبب سے اس کا اچھی طرح انتظام کر لیا گیا۔ بغداد کے خلیفہ الناصر الدین اللہ نے بھی (جیسا کہ تم پڑھ چکے ہو) ادھر توجہ کی تھی اور کبوتروں کی ڈاک اپنی قلمرو میں جاری کی تھی۔ اس کا یہ نتیجہ ہوا تھا کہ تمام سلطنت کے کسی واقعہ سے وہ بے خبر نہ رہتا تھا۔ اس کی بادشاہت کا رعب شام سے ہندوستان تک پہنچا ہوا تھا۔ چین تک اس کا اثر حکومت پہنچا۔ اور اسپین تک اس کے نام پر دعائیں دی گئیں۔ و ہذا ایضاًمن برکاتہ البرامکہ! سلطان صلاح الدین نے بھی کبوتروں سے بہت وقتوں میں مدد لی ہے اور انہیں کے ذریعے سے پیامبری کر کے کام نکالا ہے۔ (محاصرہ عکا۔) لڑائی کے موقعوں میں جب اور کوئی ذریعہ نہیں ہوتا تو کبوتروں ہی کی طرف توجہ کی جاتی ہے اور انہیں کے ذریعہ سے مخبری کا کام ہوتا ہے۔ چنانچہ اس کی نظیر بہت سی لڑائیوں میں ملےگی۔ عربک لٹریچر اور کبوتر یوں تو اردو و فارسی دونوں زبانوں کے قصیدوں میں بکثرت کبوتروں کی نامہ بری کا ذکر موجود ہے۔ مگر عربی لٹریچر جس قدراس سے مؤثر ہوا ہے، غالباً کوئی لٹریچر اس قدر نہ ہوا ہوگا۔ اہل ادب نے ان کی مداح سرائی کی ہے اور خاص قصیدے اور مختلف نظمیں ان کے اوصاف میں لکھی ہیں۔ عجیب و غریب ناموں سے یاد کیا ہے۔ خطماء الطیر ملائکۃ الملوک۔ ملک الطیور۔ اور کیا کیا کچھ پر لطف نام رکھے گئے ہیں۔ بعض افاضل ادب نے مقفی نثریں اور رنگین عبارتیں ان کی مدح میں لکھی ہیں۔ اور ان میں کبوتروں کو سبھی کچھ بنایا ہے۔ آج کلتو نامہ بر کبوتروں کی کہیں سے آواز نہیں آتی۔ تار برقی کی حیرت ناک ایجاد نے یہ سب کچھ خواب و خیال کر دیا ہے۔ اب نہ کسی محکمے کی ضرورت ہے نہ موصل میں جا کرمناسیب کے تلاش کرنے کی۔ بس دو روپیہ جیب سے نکال کر تار آفس میں جاکر دے دیجئے۔ کاغذ کے لیے ورق الطیر کی آپ کو ضرورت نہ ہوگی۔ ورق التار پر جو مفت ملا کرتا ہے خبر لکھ دیجئے۔ ہاں اختصار اسی طرح مد نظر رہے۔ ارجنٹ تار ہی دو گھنٹے میں مکتوب الیہ کو پہنچ جائے گی! لیجئے! کہاں کے کبوتر اور کیسا محکمہ!دنیائے شاعریگو اس وقت کبوتروں کی نامہ بری موقوف ہو گئی ہے۔ مگر خیر سے’’دنیائے شاعری‘‘ میں ابھی تک بڑے زور و شور سے جاری ہے۔ اس عجیب دنیا میں یہ حضرت کبوتر عجیب عجیب کام کرتے ہیں۔ کبھی توعشاق کی خبریں، ان کی دردناک کیفیت معشوق تک پہنچا دیتے ہیں اور کبھی بے چارے عاشق پر توجہ نہیں کرتے، اور معشوقانہ انداز دکھلاتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مژدہ وصل سے عشاق کو مسرور کر دیں مگر بہت کم۔ اس دنیا میں اس کبوتر کو قاصد اور صبا کے برابر جگہ دی جاتی ہے جو ان کے لئے باعث افتخار ہے۔ ان کی موجودگی کو عشاق اپنی قسمت کی یاوری اور ان کی عدم موجودگی کو بدنصیبی سمجھتے ہیں۔ اور حالت یاس میں کہتے ہیں کہنہ قاصدے نہ صبا ہے نہ مرغ نامہ برےکسے زبیکسی ماتمی برد خبرے بعض اوقات کبوتر کو بھی مشتاق دیدار سمجھتے ہیں اور ان کی اس تیز رفتاری کو اسی خود غرضی پر محمول کرتے ہیں، بسکہ دارد اشتیاق دیدن مطلوب مابال بر بال کبوتر می زند مکتوب ماکبھی کبوتر کی سرخ سرخ آنکھیں اس طور پر تسلیم کی جاتی ہیں کہ ہمارے درد وغم کو دیکھ کر آنکھوں سے خون رو رہا ہے! سرخی چشم کبوتر ہیچ میدانی کہ چیست نامہ می برداز من و بر حال من خون مہگیرستغرض دنیائے شاعری میں اس کی نامہ بری خوب جاری ہے۔ احوال ما زحوصلۂ نامہ بیش بودبرخے از ان بیان کبوتر نوشتہ امجواب نامۂ من غیر نا امیدی نیستزدست سو دن بال کبوترم پیداستتابرد شوق نامۂ رنگین کبوترمگردید لال وار سپید و سیاہ و سرخقاصد ادا می نامہ تواند نہ عرض شوقحیف از زبان کہ بال کبوتر نمی شودآزادؔ دہلوی۔ از کلکتہ
حاشیہ
(۱) چنانچہ قاضی فاضل نے اس قسم کے اور بہت سے نام تعریفی اور توصیفی لکھے ہیں اور علامہ فیروزی نے بھی یہ نام لکھے ہیں۔ ۱۲۔ آزادؔ۔
(۲) آج کل بھی جن مقامات پر تار برق نہیں ہے وہاں ان کبوتروں سے خبر رسانی کا کام لیا جاتا ہے۔
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |