زمانہ ہے کہ گزرا جا رہا ہے
زمانہ ہے کہ گزرا جا رہا ہے
یہ دریا ہے کہ بہتا جا رہا ہے
وہ اٹھے درد اٹھا حشر اٹھا
مگر دل ہے کہ بیٹھا جا رہا ہے
لگی تھی ان کے قدموں سے قیامت
میں سمجھا ساتھ سایا جا رہا ہے
زمانے پر ہنسے کوئی کہ روئے
جو ہونا ہے وہ ہوتا جا رہا ہے
مرے داغ جگر کو پھول کہہ کر
مجھے کانٹوں میں کھینچا جا رہا ہے
بہار آئی کہ دن ہولی کے آئے
گلوں میں رنگ کھیلا جا رہا ہے
رواں ہے عمر اور انسان غافل
مسافر ہے کہ سوتا جا رہا ہے
سر میت ہے یہ عبرت کا نوحہ
محبت کا جنازہ جا رہا ہے
جلیلؔ اب دل کو اپنا دل نہ سمجھو
کوئی کر کے اشارا جا رہا ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |