زمین مے کدۂ عرش بریں معلوم ہوتی ہے

زمین مے کدۂ عرش بریں معلوم ہوتی ہے
by ریاض خیرآبادی

زمین مے کدۂ عرش بریں معلوم ہوتی ہے
یہ خشت خم فرشتے کی جبیں معلوم ہوتی ہے

پری اڑنے میں زلف عنبریں معلوم ہوتی ہے
یہ کالی شکل بھی کتنی حسیں معلوم ہوتی ہے

مری حسرت تبسم آفریں معلوم ہوتی ہے
چھپی تیرے تبسم میں نہیں معلوم ہوتی ہے

شفق کہہ لے کوئی چاہے شفق گوں آسماں کہہ لے
ہمیں تو کوئے قاتل کی زمیں معلوم ہوتی ہے

چلی ہے تیغ تو کس ناز سے تھم تھم کے رک رک کر
یہ کچھ ان سے زیادہ نازنیں معلوم ہوتی ہے

ارے ساقی ذرا میری شراب تلخ تو لانا
مئے کوثر تو بالکل انگبیں معلوم ہوتی ہے

چھپی ہے وہ نگاہ شوخ بھی مژگاں کے سائے میں
چھری بھی آج زیر آستیں معلوم ہوتی ہے

ابھارو تو ذرا شاید مرا ڈوبا ہوا دل ہو
کوئی شے بحر غم میں تہہ نشیں معلوم ہوتی ہے

نہیں اب درد دل لیکن ابھی تک ہے اثر کچھ کچھ
چمک رہ رہ کے پہلو میں کہیں معلوم ہوتی ہے

اثر ڈالا ہے حسرت نے نگاہ شوق پر کتنا
کہ وہ اب بھی نگاہ واپسیں معلوم ہوتی ہے

یہ اے صیاد رہ رہ کر چمکتی ہے کہاں بجلی
جہاں میرا نشیمن تھا وہیں معلوم ہوتی ہے

لپک اس کی چمک اس کی وہی دم خم وہی عالم
یہ بجلی کوئی آہ آتشیں معلوم ہوتی ہے

ریاضؔ ایسی مرے دل سے لگی ہے جام کوثر کی
مے انگور اب اچھی نہیں معلوم ہوتی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse