زمیں سے اٹھی ہے یا چرخ پر سے اتری ہے

زمیں سے اٹھی ہے یا چرخ پر سے اتری ہے
by انشاء اللہ خان انشا
293828زمیں سے اٹھی ہے یا چرخ پر سے اتری ہےانشاء اللہ خان انشا

زمیں سے اٹھی ہے یا چرخ پر سے اتری ہے
یہ آگ عشق کی یا رب کدھر سے اتری ہے

اترتی نجد میں کب تھی سواریٔ لیلیٰ
ٹک آہ قیس کے جذب اثر سے اتری ہے

نہیں نسیم بہاری یہ ہے پری کوئی
اڑن کھٹولے کو ٹھہرا جو فر سے اتری ہے

نہ جان اس کو شب مہ یہ چاندنی خانم
کمند نور پہ اوج قمر سے اتری ہے

چلو نہ دیکھیں تو کہتے ہیں دشت وحشت میں
جنوں کی فوج بڑے کر و فر سے اتری ہے

نہیں یہ عشق تجلی ہے حق تعالی کی
جو راہ زینۂ بام نظر سے اتری ہے

لباس آہ میں لکھنے کے واسطے انشاؔ
قلم دوات تجھے عرش پر سے اتری ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.