زمیں سے اٹھی ہے یا چرخ پر سے اتری ہے
زمیں سے اٹھی ہے یا چرخ پر سے اتری ہے
یہ آگ عشق کی یا رب کدھر سے اتری ہے
اترتی نجد میں کب تھی سواریٔ لیلیٰ
ٹک آہ قیس کے جذب اثر سے اتری ہے
نہیں نسیم بہاری یہ ہے پری کوئی
اڑن کھٹولے کو ٹھہرا جو فر سے اتری ہے
نہ جان اس کو شب مہ یہ چاندنی خانم
کمند نور پہ اوج قمر سے اتری ہے
چلو نہ دیکھیں تو کہتے ہیں دشت وحشت میں
جنوں کی فوج بڑے کر و فر سے اتری ہے
نہیں یہ عشق تجلی ہے حق تعالی کی
جو راہ زینۂ بام نظر سے اتری ہے
لباس آہ میں لکھنے کے واسطے انشاؔ
قلم دوات تجھے عرش پر سے اتری ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |