زندگی ایک اذیت ہے مجھے
زندگی ایک اذیت ہے مجھے
تجھ سے ملنے کی ضرورت ہے مجھے
دل میں ہر لحظہ ہے صرف ایک خیال
تجھ سے کس درجہ محبت ہے مجھے
تری صورت تری زلفیں ملبوس
بس انہی چیزوں سے رغبت ہے مجھے
مجھ پہ اب فاش ہوا راز حیات
زیست اب سے تری چاہت ہے مجھے
تیز ہے وقت کی رفتار بہت
اور بہت تھوڑی سی فرصت ہے مجھے
سانس جو بیت گیا بیت گیا
بس اسی بات کی کلفت ہے مجھے
آہ میری ہے تبسم تیرا
اس لیے درد بھی راحت ہے مجھے
اب نہیں دل میں مرے شوق وصال
اب ہر اک شے سے فراغت ہے مجھے
اب نہ وہ جوش تمنا باقی
اب نہ وہ عشق کی وحشت ہے مجھے
اب یوں ہی عمر گزر جائے گی
اب یہی بات غنیمت ہے مجھے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |