زنہار ہمت اپنے سے ہرگز نہ ہاریے
زنہار ہمت اپنے سے ہرگز نہ ہاریے
شیشے میں اس پری کو نہ جب تک اتارئیے
اوضاع ڈھونڈ ڈھاڈ کے یاروں سے سیکھئے
ہوتے نہیں جہان میں ہم سے نیارئیے
اے اشک گرم کر مرے دل کا علاج کچھ
مشہور ہے کہ چوٹ کو پانی سے دہارئے
جو اہل فقر و شاہ کمہارے کے ہیں مرید
پالے ہیں ان سبھوں نے کبوتر کمہارئے
گلنے کی دال یاں نہیں بس خشکہ کھائیے
اے شیخ صاحب آپ نہ شیخی بگھاریے
کل جن کو کھیرے ککڑی کیا کوس کاٹ کر
آج اس پری نے ان کو دیئے نرم آریے
ہو آب میں کدر تو ٹھہر جائیے ٹک ایک
دل میں کدورت آوے تو کیوں کر نتھاریے
ہے کون سی یہ وضع بھلا سوچیے تو آپ
باتیں ادھر کو کیجے ادھر آنکھ ماریے
پوچھے حقیقت ایک نے جو امن راہ کی
تو بولے سر جھکا کے بچا وہ مدارئیے
خطرہ نہ آپ کیجے بس اب خیر شوق سے
سونا اچھالتے ہوئے گھر کو سدھارئے
ہے جو بلند حوصلہ ان کی یہ چال ہے
کیا پھر انہیں بگاڑئے جن کو سنوارئیے
پنڈت جی ہم میں ان میں بھلا کیسے ہونے کے
پوتھی کو اپنے کھولیے کچھ تو بچارئے
انشاؔ کوئی جواب بھی دینا نہیں ہمیں
بانگ جرس کی طرح کہاں تک پکاریے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |