زیست ہونی تعجبات ہے اب
زیست ہونی تعجبات ہے اب
مر ہی جانا بس ایک بات ہے اب
دور میں تیرے ہے وہ کچھ اندھیر
نہیں معلوم دن ہے رات ہے اب
دل ہے زندہ نہ جی ہی جیتا ہے
زندگی بد تر از ممات ہے اب
اتنے بے دید بے شنید ہوئے
نہ توجہ نہ التفات ہے اب
ہجر کیسا وصال ہو بالفرض
کچھ ہی صورت ہو مشکلات ہے اب
جی ہی لینا بہ لطف ہے منظور
اس قدر جو تفضلات ہے اب
جیتے جی تو رہا وصال محال
مر چکے پر توقعات ہے اب
کچھ نہ پوچھو اثرؔ کی بے چینی
نہ سکونت ہے نے ثبات ہے اب
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |